مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

عمرۂ قضاء اور اُمّ المؤمنین سیّدہ میمونہ بنت حارث کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شادی کا بیان

۔ (۱۰۸۳۳)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ مُعْتَمِرًا، فَحَالَ کُفَّارُ قُرَیْشٍ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْبَیْتِ، فَنَحَرَ ہَدْیَہُ وَحَلَقَ رَأْسَہُ بِالْحُدَیْبِیَۃِ، فَصَالَحَہُمْ عَلٰی أَنْ یَعْتَمِرُوا الْعَامَ الْمُقْبِلَ، وَلَا یَحْمِلَ السِّلَاحَ عَلَیْہِمْ، وَقَالَ سُرَیْجٌ: وَلَا یَحْمِلَ سِلَاحًا إِلَّا سُیُوفًا، وَلَا یُقِیمَ بِہَا إِلَّا مَا أَحَبُّوا، فَاعْتَمَرَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَدَخَلَہَا کَمَا کَانَ صَالَحَہُمْ، فَلَمَّا أَنْ أَقَامَ ثَلَاثًا أَمَرُوہُ أَنْ یَخْرُجَ فَخَرَجَ۔ (مسند احمد: ۶۰۶۷)

عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے آپ نے وہیں حدیبیہ کے مقام پر اپنے قربانی کے اونٹوں کو نحر کیا۔ سر منڈوایا اور ان سے معاہدہ کیا جس میں طے ہوا کہ آپ آئندہ سال آکر عمرہ کریں گے اور قریش مکہ کے خلاف ہتھیار نہ اُٹھائیں گے۔ مسلمانوں کے پاس صرف تلواریں ہو گی اور وہ مکہ میں صرف اتنے دن گزار سکیں گے جن کی قریش اجازت دیں گے چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اگلے سال آکر عمرہ اداکیا۔ اور حسبِ معاہدہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب تین دن گزر گئے تو قریش نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روانگی کا مطالبہ کیا، سو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے چلے آئے۔

۔ (۱۰۸۳۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی أَوْفٰییَقُولُ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ اعْتَمَرَ، فَطَافَ وَطُفْنَا مَعَہُ، وَصَلّٰی وَصَلَّیْنَا مَعَہُ، وَسَعٰی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَکُنَّا نَسْتُرُہُ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ، لَا یُصِیبُہُ أَحَدٌ بِشَیْئٍ، زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: قَالَ: فَسَمِعْتُہُ یَدْعُوْ عَلَی الْاَحْزَابِ یَقُوْلُ: ((اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ ھَازِمَ الْاَحْزَابِ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْھُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۲۷)

عبداللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب عمرہ ادا کیا تو ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طواف کیا تو ہم نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ طواف کیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نمازادا کی تو ہم نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفا اور مروہ کے مابین سعی کی تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سعی کی، ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارد گردرہ کر اہل مکہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دفاع کر رہے تھے، تاکہ اہل مکہ میں سے کوئی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تکلیف نہ پہنچا دے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسلام دشمن جماعتوں کے خلاف یہ دعا کرتے سنا: اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ ھَازِمَ الْاَحْزَابِ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْھُمْ ( اے اللہ! کتاب نازل کرنے والے، جلد حساب لینے والے، تمام جماعتوں کو شکست سے دو چار کرنے والے، یا اللہ انہیں شکست سے دو چار کر اور ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ )

۔ (۱۰۸۳۵)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ فِیْ عُمْرَۃِ الْقَضَائِ اَتَوْا عَلِیًّا فَقَالُوْا: قُلْ لِصَاحِبِکَ فَلْیَخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَی الْاَجَلُ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۳۸)

سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عمرۂ قضاء کے موقع پر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو ( مقرر وقت گزرنے پر ) قریشِ مکہ نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آکر کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ساتھی سے کہیں کہ مقرر وقت ختم ہو چکا ہے، لہٰذا وہ یہاں سے روانہ ہو جائیں، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ سے روانہ ہو گئے۔

۔ (۱۰۸۳۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا نَزَلَ مَرَّ الظَّہْرَانِ فِی عُمْرَتِہِ، بَلَغَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ قُرَیْشًا تَقُولُ: مَا یَتَبَاعَثُونَ مِنَ الْعَجَفِ، فَقَالَ أَصْحَابُہُ: لَوِ انْتَحَرْنَا مِنْ ظَہْرِنَا، فَأَکَلْنَا مِنْ لَحْمِہِ، وَحَسَوْنَا مِنْ مَرَقِہِ، أَصْبَحْنَا غَدًا حِینَ نَدْخُلُ عَلَی الْقَوْمِ، وَبِنَا جَمَامَۃٌ، قَالَ: ((لَا تَفْعَلُوا وَلٰکِنْ اجْمَعُوا لِی مِنْ أَزْوَادِکُمْ۔)) فَجَمَعُوا لَہُ وَبَسَطُوا الْأَنْطَاعَ، فَأَکَلُوا حَتّٰی تَوَلَّوْا وَحَثَا کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ فِی جِرَابِہِ، ثُمَّ أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَقَعَدَتْ قُرَیْشٌ نَحْوَ الْحِجْرِ، فَاضْطَبَعَ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ: ((لَا یَرَی الْقَوْمُ فِیکُمْ غَمِیزَۃً۔)) فَاسْتَلَمَ الرُّکْنَ ثُمَّ دَخَلَ حَتّٰی إِذَا تَغَیَّبَ بِالرُّکْنِ الْیَمَانِی مَشٰی إِلَی الرُّکْنِ الْأَسْوَدِ، فَقَالَتْ قُرَیْشٌ: مَا یَرْضَوْنَ بِالْمَشْیِ أَنَّہُمْ لَیَنْقُزُونَ نَقْزَ الظِّبَائِ فَفَعَلَ ذٰلِکَ ثَلَاثَۃَ أَطْوَافٍ، فَکَانَتْ سُنَّۃً، قَالَ أَبُو الطُّفَیْلِ: وَأَخْبَرَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَلَ ذٰلِکَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۲)

ابو طفیل سے مروی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ عمرۂ قضا ء کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرالظہران کے مقام پر پہنچے تو صحابہ کو یہ بات پہنچی کہ قریش مسلمانوں کے جسموں کے نحیف ہونے کی باتیں کر رہے ہیں، پس صحابہ نے گزارش کی اگر ہم اپنے کچھ اونٹوں کو ذبح کر کے ان کا گوشت کھائیں اور شوربا یعنییخنی بنا کر پئیں تو جب ہم ان کے سامنے جائیں تو ہم خوب سیراب اور سیر نظر آئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ایسے نہ کرو بلکہ تم اپنا زادِ راہ ایک جگہ میں جمع کرو۔ صحابہ نے کھانے کا سارا سامان ایک جگہ جمع کر دیا اور چمڑے کے دستر خوان بچھا دئیے اور سب نے کھانا کھایا،یہاں تک کہ کھا کھا کر وہ اُٹھ گئے اور ہر ایک نے اپنے اپنے تھیلے بھی کھانے سے بھر لیے، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد حرام میں آئے، جبکہ قریشی حجر یعنی حطیم کی جانب بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی چادر سے اضطباع کیا۔ (یعنی طواف کے وقت چادر کا درمیا ن والا حصہ دائیں کندھے کے نیچے بغل سے نکال کر چادر کے دونوں سروں کو بائیں کندھے پر ڈال دیا اور اس طرح دایاں کندھا ننگا ہو گیا، اس عمل کو اضطباع کہتے ہیں) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ قریشی لوگ تمہارے اندر کمزوری محسوس نہ کریں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا اور (رمل کرتے ہوئے) طواف شروع کیا،یہاں تک کہ جب آپ رکن یمانی کی جانب قریش کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو حجرِاسود تک عام رفتار سے چل کر گئے، قریش نے ان کی کیفیات دیکھ کر کہا کہ یہ لوگ طواف کرتے ہوئے عام رفتار سے چلنے پر مطمئن نہیں، بلکہ اچھل اچھل کر اور کود کود کر طواف کرتے ہیں، جیسے ہرن اچھلتے کودتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین چکروں میں ایسے ہی رمل کیا، (رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلے)، پس یہ عمل سنت ٹھہرا، ابو طفیل کہتے ہیں: سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بتلایا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ عمل حجۃ الوداع میں (بھی) کیا تھا۔

۔ (۱۰۸۳۷)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ وَقَدْ وَہَنَتْہُمْ حُمّٰییَثْرِبَ، قَالَ: فَقَالَ الْمُشْرِکُونَ: إِنَّہُ یَقْدُمُ عَلَیْکُمْ قَوْمٌ قَدْ وَہَنَتْہُمُ الْحُمّٰی، قَالَ: فَأَطْلَعَ اللّٰہُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی ذٰلِکَ، فَأَمَرَ أَصْحَابَہُ أَنْ یَرْمُلُوْا، وَقَعَدَ الْمُشْرِکُونَ نَاحِیَۃَ الْحَجَرِ یَنْظُرُونَ إِلَیْہِمْ فَرَمَلُوا وَمَشَوْا مَا بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ، قَالَ: فَقَالَ الْمُشْرِکُونَ: ہٰؤُلَائِ الَّذِینَ تَزْعُمُونَ أَنَّ الْحُمّٰی وَہَنَتْہُمْ، ہٰؤُلَائِ أَقْوٰی مِنْ کَذَا وَکَذَا ذَکَرُوا قَوْلَہُمْ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمْ یَمْنَعْہُ أَنْ یَأْمُرَہُمْ أَنْ یَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ کُلَّہَا إِلَّا إِبْقَائٌ عَلَیْہِمْ، وَقَدْ سَمِعْتُ حَمَادًا یُحَدِّثُہُ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، لا شَکَّ فِیْہِ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۲۶۳۹)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابۂ کرام عمرۂ قضا کے موقع پر مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ یثرب کے بخار نے ان کو کمزور کر رکھا تھا، اسی وجہ سے مشرکوںنے کہا: ایسے لوگ تمہارے پاس آرہے ہیں جنہیںیثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کی اطلاع دے دی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو طواف کے دوران رمل کرنے کا حکم دیا، مشرکین حطیم کی جانب بیٹھے مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے۔ مسلمانوں نے رمل کیا، البتہ رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان عام رفتار سے چلتے رہے، یہ صورتحال دیکھ کر مشرکین نے کہا: یہی وہ لوگ ہیں جن کی بابت تم کہہ رہے تھے کہ ان کو بخار نے کمزور کر رکھا ہے، یہ تو انتہائی طاقت ور ہیں، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صرف ابتدائی تین چکروں میں رمل کیا اور بعد میں نہیں کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں پر ترس کھاتے ہوئے تمام چکروں میں دوڑنے کا حکم نہیں فرمایا تھا۔