مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

اس امر کا بیان کہ غزوۂ طائف ان مشرکین کی وجہ سے پیش آیا جو غزوۂ حنین سے جان بچا کر بھاگ گئے تھے

۔ (۱۰۹۱۱)۔ عَنْ اَبِی نَجِیْحٍ السُّلَمِیِّ قَالَ: حَاصَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِصْنَ الْطَائِفِ اَوْ قَصْرَ الطَّائِفِ، فَقَالَ: ((مَنْ بَلَغَ بِسَہْمٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَلَہٗدَرَجَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَبَلَغْتُ یَوْمَئِذٍ سِتَّۃَعَشَرَ سَہْمًا، ((وَمَنْ رَمٰی بِسَہْمٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَہُوَ لَہٗعِدْلُمُحَرَّرٍ،وَمَنْاَصَابَہٗشَیْبٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَہُوَ لَہٗنُوْرٌیَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۴۸)

سیدنا ابونجیح سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں طائف کے قلعہ یا محل کا محاصرہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں ایک تیر چلایا، اسے جنت میں ایک درجہ ملے گا۔ چنانچہ میں نے اس دن سولہ تیر چلائے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: اور جس نے اللہ کی راہ میں دشمن کو تیر مارا، اسے ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنے کے برابر ثواب ہو گا اور جو آدمی اللہ کی راہ میں بوڑھا ہو گیا تو بڑھاپے کییہ سفیدی قیامت کے دن اس کے لیے نور کا سبب ہو گی۔

۔ (۱۰۹۱۲)۔ عَنْ اَبِیْ طَرِیْفٍ قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ حَاصَرَ الطَّائِفَ، وَکَانَ یُصَلِّی بِنَا صَلَاۃَ الْعَصْرِ حَتّٰی لَوْ اَنَّ رَجُلًا رَمٰی لَرَاٰی مَوْقِعَ نَبْلِہٖ۔ (مسند احمد: ۱۵۵۱۶)

سیدنا ابو طریف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا تو میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں عصرکی نماز ایسے وقت پڑھاتے تھے کہ اگر کوئی آدمی اس نماز سے فارغ ہو کر تیر کے گرنے کی جگہ کو دیکھنا چاہتا تو ( باآسانی ) دیکھ سکتا تھا۔

۔ (۱۰۹۱۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَاصَرَ رَسُْوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَھْلَ الطَّائِفِ، فَخَرَجَ اِلَیْہِ عَبْدَانِ فَاَعْتَقَہُمَا، اَحَدُھُمَا اَبُوْ بَکْرَۃَ، وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْتِقُ الْعَبِیْدَ إِذَا خَرَجُوْا إِلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۲۱۷۶)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہلِ طائف کا محاصرہ کیا تو ان میں سے دو غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آملے، ان میں سے ایک کا نام ابو بکرہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں کو آزاد کر دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت ِ مبارکہ یہی تھی کہ جب دشمن کی طرف سے کوئی غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آ ملتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو آزاد فرما دیتے تھے۔

۔ (۱۰۹۱۴)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الطَّائِفِ: ((مَنْ خَرَجَ إِلَیْنَا مِنَ الْعَبِیدِ فَہُوَ حُرٌّ۔)) فَخَرَجَ عَبِیدٌ مِنَ الْعَبِیدِ فِیہِمْ أَبُو بَکْرَۃَ، فَأَعْتَقَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند أحمد: ۲۲۲۹)

۔(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف والے دن فرمایا: جو غلام ہمارے پاس آ جائیں گے، وہ آزاد ہوں گے۔ پھر سیدنا ابو بکرہ سمیت کچھ غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آگئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو آزاد کر دیا۔

۔ (۱۰۹۱۵)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا اَحْصَرَ اَھْلَ الطَّائِفِ وَلَمْ یُقَدِّرْ مِنْہُمْ عَلٰی شَیْئٍ، قَالَ: ((إِنَّا قَافِلُوْنَ غَدًا إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔)) فَکَاَنَّ الْمُسْلِمِیْنَ کَرِھُوْا ذٰلِکَ، فَقَالَ: ((اغْدُوْا۔)) فَغَدَوْا عَلَی الْقِتَالِ، فَاَصَابَہُمْ جِرَاحٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: ((إِنَّا قَافِلُوْنَ غَدًا اِنْ شَائَ اللّٰہُ۔)) فَسُرَّ الْمُسْلِمُوْنَ فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۴۵۸۸)

سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب اہلِ طائف کا محاصرہ کیا اور کامیابی نہیں ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم ان شاء اللہ کل واپس روانہ ہو جائیں گے۔ یوں محسوس ہوا کہ گویا مسلمانوں نے اس فیصلہ کو پسند نہیں کیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے صبح لڑائی کرنا۔ جب صبح ہوئی تو مسلمانوں نے لڑائی کی، جس کے نتیجہ میں کافی مسلمان زخمی ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: ہم ان شاء اللہ کل واپس روانہ ہو جائیں گے۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہو گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کییہ کیفیت دیکھ کر ہنس دئیے۔