سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روانہ کئے ہوئے گھڑ سوار آئے تو میں ان دنوں یمامہ کے علاقے میں عقرب کے مقام پر تھا، وہ لوگ میری پھوپھی اور چند لوگوں کو پکڑ کر لے گئے، جب وہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لے گئے تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑا کر دیا گیا،میری پھوپھی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے مردوں میں سے جو آپ کی خدمت میں آسکتا تھا، وہ بہت دور ہے، بچے جدا ہو گئے، میں بہت بوڑھی ہوں، میں کچھ کر بھی نہیں سکتی، آپ مجھ پر احسان کریں، اللہ آپ پر احسان کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: تمہاری طرف سے کون مرد آسکتا تھا؟ اس نے کہا: عدی بن حاتم، آپ نے فرمایا: وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بچتے ہوئے فرار ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: بہرحال آپ مجھ پر احسان کریں، وہ کہتی ہیں: جب اللہ کے رسول واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا، ہمارا خیال ہے کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے، اس آدمی نے میری پھوپھی سے کہا: تم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سواری طلب کرو، اس نے سواری کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے سواری مہیا کر دی جائے۔ عدی کہتے ہیں: میری پھوپھی میرے پاس آئیتو اس نے کہا کہ تو نے جنگ سے فرار ہو کر ایسا بزدلانہ کام کیا ہے کہ تمہارا باپ ایسا نہیں کرتا تھا۔ تم دین کی رغبت کے ساتھ یا ڈرتے ہوئے جیسے بھی ہو، اس نبی کے پا س پہنچو، فلاں اور فلاں آدمی ان کے پاس گیا تو اسے بہت کچھ ملا، عدی کہتے ہیں: میں آپ کی خدمت میں آیا تو اس وقت آپ کے پاس ایک عورت اور چند بچے، یا ایک بچہ موجود تھا، عدی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہونے کا ذکر کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں جان گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسریٰ اور قیصر جیسے بادشاہ نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدی سے فرمایا: تم لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہنے کے ڈر سے کیوں فرار ہو ئے؟ کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے، تم اللہ اکبر کہنے سے کیوں بھاگ گئے؟ کیا اللہ تعالیٰ سے بھی بڑا کوئی ہے؟ عدی کہتے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سن کر میں مسلمان ہو گیا، میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ دمک اُٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مغضوب علیمیعنی جن لوگوں پر اللہ کا غضب ہوا، ان سے مراد یہودی ہیں اور ضالینیعنی گمراہ لوگوں سے عیسائی مراد ہیں۔ کچھ بدوؤں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا: لوگو! تم اپنی ضرورت سے زائد اشیاء میں سے کچھ نہ کچھ دو۔‘ یہ سن کر کوئی ایک صاع اور کوئی اس سے بھی کم اور کوئی مٹھی بھر لے کر آیا کوئی اس سے کم لایا۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میرے علم کے مطابق کوئی کھجور لایا اور کوئی کھجور کا ایک ٹکڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے والا ہے تو اللہ اس سے فرمائے گا کیا میں نے تجھے سننے والا دیکھنے والا نہیں بنایا تھا؟ کیا میں نے تجھے مال و اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ تو کیا کر کے آیا ہے؟ یہ آدمی اپنے آگے پیچھے، دائیں بائیں دیکھے گا تو اپنے لیے کچھ بھی نہیں پائے گا، وہ اپنے چہرے سے ہی آگ سے بچنے کی کوشس کرے گا، مگر بچ نہیں سکے گا، لہذا لوگو! تم جہنم سے بچنے کا سامان کر لو، اگر چہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہیں ہو، اگر تم اتنی چیز بھی نہیں پاؤ تو اچھی بات کر کے ہی جہنم سے بچاؤ کا سامان کر لو، مجھے تم پر فقرو فاقہ کا ڈر نہیں، اللہ تعالیٰ ضرورتمہاری مدد کرے گا اور تمہیں بہت کچھ عطا فرمائے گا، یایوں فرمایا کہ تمہیں ضرور فتوحات سے نوازے گا، یہاں تک کہ ایک اونٹ سوار خاتون حیرہ سے یثرب تک کا یا اس سے بھی زیادہ سفر کر ے گی اور اسے چوری کا کوئی ڈر خوف ہو گا۔ امام احمد کے شیخ محمد بن جعفر کہتے ہیں کہ ہمارے استاز شعبہ نے بے شمار مرتبہ یہ حدیث ہمیں سنائی اور میں نے بھی ان کے سامنے بہت مرتبہ پڑھی،یعنییہ حدیث اہل علم کے ہاں ثابت اور مشہور ہے۔
ایک آدمی کہتا ہے: میں نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے بارے میں ایک حدیث پہنچی ہے، میں وہ حدیث براہ راست آپ سے سننا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ اطلاع ملی کہ آپ کا ظہور ہوا ہے تو مجھے اس سے شدید کراہت ہوئی اور میں وہاں سے نکل کر روم کے علاقوں کی طرف چلا گیا،یزید راوی نے بتایا کہ وہ بغداد چلے گئے، میں قیصر کے ہاں چلا گیا، مجھے جس قدر نفرت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور پر ہوئی تھی، مجھے اپنی وہاں آمد پر اس سے بھی زیادہ نفرت ہوئی، پھر میں نے سوچا کہ اللہ کی قسم! میں خود کیوں نہ اس آدمی کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں، اگر وہ جھوٹا ہوا تو مجھے اس سے کچھ ضرر نہیں ہو گا اور اگر وہ سچا ہوا تو میں اس کے سچ کو جان لوں گا۔ چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا، میں جب پہنچا تو لوگ کہنے لگے: عدی بن حاتم آ گئے، عدی بن حاتم آ گئے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے تین بار فرمایا: عدی بن حاتم! اسلام قبول کر لو، سلامتی پاؤ گے۔ میں نے عرض کیا: میں پہلے ہی ایک دین پر کار بند ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے دین کو تم سے بہتر جانتا ہوں۔ میں نے کہا: کیا آپ میرے دین کو مجھ سے بہتر طور پر جانتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، کیا تو رکوسیۂ میں سے نہیں ہے اور کیا تم اپنی قوم کی غنیمتوں میں سے ایک چوتھائی حصہ نہیں کھاتا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ہی دین کی رو سے تو یہ تمہارے لیے حلال نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کییہ بات کہنے کی دیر تھی کہ میں اس بات کے آگے جھک گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ قبول اسلام سے تمہیں کیا رکاوٹ ہے، تم سمجھتے ہو کہ لوگوں میں سے ایسے کمزور طبقے نے میری پیروی کی ہے، جنہیں دنیاوی طور پر کسی قسم کی قوت حاصل نہیں اور عرب نے ان لوگوں کو دھتکار دیا ہے، کیا تم حیرہ کو جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی میں نے اسے دیکھا تو نہیں، البتہ اس کے متعلق سنا ضرور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ ضرور اس دین کو اس حد تک غالب کرے گا کہ ایک شتر سوار خاتون بے خوف وخطر حیرہ سے آکر بیت اللہ کا طواف کرے گی اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانے مفتوح ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: کیا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ہاں، کسری بن ہرمز کے اور مال ودولت اس قدر عام ہو جائے گا کہ کوئی شخص اسے لینے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ سیدناعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: واقعی شتر سوار خاتون تن تنہا حیرہ سے بے خوف وخطر چل کر بیت اللہ کا طواف کرتی ہے اور کسریٰ بن ھرمز کے خزانوں کو فتح کیا گیا اور میں خود ان لوگوں میں سے ہوں، جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو فتح کیا، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیسری بات بھی ضرور پوری ہو گی، کیونکہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہی ہوئی ہے۔