مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا غزوۂ تبوک کے لیے خصوصی اہتمام اور اس کے لیے سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے عطیہ کا بیان

۔ (۱۰۹۲۷)۔ عن کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ یَقُولُ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَلَّمَا یُرِیدُ غَزْوَۃًیَغْزُوہَا إِلَّا وَرّٰی بِغَیْرِہَا حَتَّی کَانَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ، فَغَزَاہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَرٍّ شَدِیدٍ، اسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِیدًا وَمَفَازًا، وَاسْتَقْبَلَ غَزْوَ عَدُوٍّ کَثِیرٍ، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِینَ أَمَرَہُمْ لِیَتَأَہَّبُوا أُہْبَۃَ عَدُوِّہِمْ، أَخْبَرَہُمْ بِوَجْہِہِ الَّذِییُرِیدُ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۷۴)

سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی غزوہ کا قصد فرماتے تو توریہ کرتے تھے، لیکن جب غزوۂ تبوک کا موقع آیا، چونکہ یہ شدید گرمی کا موسم تھا اور طویل اور صحراء کا سفر تھا، نیز تعداد کے لحاظ سے بہت بڑے دشمن لشکر کا مقابلہ درپیش تھا، اس لیےآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کے سامنے ساری صورتحال کھول کر واضح فرما دی تاکہ وہ اپنے دشمن کے مقابلہ کے لیے تیاری کر لیں۔

۔ (۱۰۹۲۸)۔ عَنِ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ اَبِیْہِ: اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ یَوْمَ الْخَمِیْسِ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ۔ (مسند احمد: ۱۵۸۷۱)

سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ تبوک کے لیے جمعرات کے دن سفر شروع کیا۔

۔ (۱۰۹۲۹)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ خَبَّابٍ السُّلَمِیِّ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَثَّ عَلٰی جَیْشِ الْعُسْرَۃِ، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ: عَلَیَّ مِائَۃُ بَعِیرٍ بِأَحْلَاسِہَا وَأَقْتَابِہَا، قَالَ: ثُمَّ حَثَّ فَقَالَ عُثْمَانُ: عَلَیَّ مِائَۃٌ أُخْرٰی بِأَحْلَاسِہَا وَأَقْتَابِہَا، قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ مِرْقَاۃً مِنَ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ حَثَّ فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ: عَلَیَّ مِائَۃٌ أُخْرٰی بِأَحْلَاسِہَا وَأَقْتَابِہَا، قَالَ: فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ بِیَدِہِ ہٰکَذَایُحَرِّکُہَا، وَأَخْرَجَ عَبْدُ الصَّمَدِ یَدَہُ کَالْمُتَعَجِّبِ: ((مَا عَلٰی عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ہٰذَا۔)) (مسند احمد: ۱۶۸۱۶)

سیدنا عبدالرحمن بن خباب سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سفر کا ارادہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جیش العسرۃ (تنگ دست لشکر، مراد غزوۂ تبوک ہے) کی مدد کے لیے لوگوں کو ترغیب دلائی،سیدنا عثما ن بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں ایک سو اونٹ ان کے پالانوں اور پالانوں کے نیچے رکھے جانے والے نمدوں سمیت دوں گا۔ آپ نے لوگوں کو مدد کے لیے مزید ترغیب دلائی، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پھر کہا: مزید ایک سو اونٹ مع پالان ونمدوں کے میرے ذمے ہیں، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر کی ایک سیڑھی نیچے اتر کر مزید ترغیب دلائی تو عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا مزید ایک سو اونٹ ان کے پالانوں اور نمدوں سمیت میرے ذمہ ہیں۔ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھ کو اس طرح حرکت دے رہے تھے۔ عبدالصمد(اسنادِ حدیث کے ایک راوی) نے انتہائی خوش ہونے والے آدمی کے انداز میں ہاتھ کو نکالا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس طرح اپنے ہاتھ کو ہلاتے اور حرکت دیتے ہوئے فرمایا: آج کے بعد عثمان جو بھی کرتا رہے، اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔

۔ (۱۰۹۳۰)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ: جَائَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِأَلْفِ دِینَارٍ فِی ثَوْبِہِ حِینَ جَہَّزَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشَ الْعُسْرَۃِ، قَالَ: فَصَبَّہَا فِی حِجْرِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَلِّبُہَا بِیَدِہِ، وَیَقُولُ: ((مَا ضَرَّ ابْنَ عَفَّانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْیَوْمِ۔)) یُرَدِّدُہَا مِرَارًا۔ (مسند احمد: ۲۰۹۰۶)

سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جیش العسرۃیعنی غزوۂ تبوک کی مدد کے لیے صحابہ کرام سے اپیل کی تو سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک ہزار دینار ایک کپڑے میں ڈال کر لائے اور ان کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جھولی میں ڈھیر کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ہاتھوں میں ان دیناروں کو الٹتے پلٹتے اور فرماتے: آج کے بعد عثمان جو کام بھی کرے، اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس بات کو بار بار دہرایا۔