مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

غزوۂ تبوک میں صحابہ کرام کو سواریوں کی قلت وغیرہ سے جو سامنا رہا اس کا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے صادر ہونے والے معجزات کا بیان

۔ (۱۰۹۳۱)۔ عَنْ شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ أَنَّ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ الْأَنْصَارِیَّ کَانَ یَقُولُ: غَزَوْنَا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوَۃَ تَبُوکَ، فَجَہَدَ بِالظَّہْرِ جَہْدًا شَدِیدًا، فَشَکَوْا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا بِظَہْرِہِمْ مِنَ الْجَہْدِ فَتَحَیَّنَ بِہِمْ مَضِیقًا، فَسَارَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِ فَقَالَ: ((مُرُّوا بِسْمِ اللّٰہِ۔)) فَمَرَّ النَّاسُ عَلَیْہِ بِظَہْرِہِمْ، فَجَعَلَ یَنْفُخُ بِظَہْرِہِمْ: ((اللَّہُمَّ احْمِلْ عَلَیْہَا فِی سَبِیلِکَ، إِنَّکَ تَحْمِلُ عَلَی الْقَوِیِّ وَالضَّعِیفِ، وَعَلَی الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔)) قَالَ: فَمَا بَلَغْنَا الْمَدِینَۃَ حَتّٰی جَعَلَتْ تُنَازِعُنَا أَزِمَّتَہَا، قَالَ فَضَالَۃُ: ہٰذِہِ دَعْوَۃُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقَوِیِّ وَالضَّعِیفِ، فَمَا بَالُ الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ؟ فَلَمَّا قَدِمْنَا الشَّامَ غَزَوْنَا غَزْوَۃَ قُبْرُسَ فِی الْبَحْرِ، فَلَمَّا رَأَیْتُ السُّفُنَ فِی الْبَحْرِ وَمَا یَدْخُلُ فِیہَا، عَرَفْتُ دَعْوَۃَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۵۵)

سیدنا فضالہ بن عبید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں غزوۂ تبوک میں شرکت کی، سواریوں کی بڑی قلت تھی، جب صحابہ کرام نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کی شکایت کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک تنگ سے راستہ پر لے چلے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس راستے پر چلے،اور فرمایا : تم اللہ کا نام لے کر یہاں سے گزرو۔ لوگ اپنی سواریاں لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی سواریوں پر پھونک مارتے اور یہ دعا کرتے جاتے: یا اللہ اس سے اپنی راہ میں کام لے تو ہی قوی اور ضعیف کو طاقت دینے والا ہے۔ اور تو ہی بروبحر یعنی خشکی اور تری اور ہر رطب و یابسیعنی تازہ اور خشک پر قدرت رکھتا ہے۔ سیدنا فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ہماری مدینہ منورہ واپسی تک ہمارے اونٹ ہم سے اپنی مہاریں کھینچتےتھے۔ یہ قوی اور ضعیف کے متعلق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاء کی برکت اور اس کا نتیجہ تھا۔ لیکن میں رطب ویابسیعنی خشک وتر کا مفہوم نہیں سمجھ سکا کہ یہاں اس سے کیا مراد ہو سکتی ہے؟ جب ہم ملکِ شام میں گئے اور ہم نے سمندر میں قبرص کی لڑائی لڑی اور میں نے سمندر میں کشتیوں کو چلتے اور سمندروں میں داخل ہوتے دیکھا تو مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاء کی حقیقت معلوم ہوئی۔

۔ (۱۰۹۳۲)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ کَبْشَۃَ الْاَنْمَارِیِّ، عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: لَمَّا کَانَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ تَسَارَعَ النَّاسُ اِلٰی اَھْلِ الْحِجْرِ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَادٰی فِیْ النَّاسِ: اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ، قَالَ: فَاَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ ھُوَ مُمْسِکٌ بَعِیْرَہُ وَ ھُوَ یَقُوْلُ : ((مَا تَدْخُلُوْنَ عَلٰی قَوْمٍ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ۔)) فَنَادَاہُ رَجُلٌ مِنْھُمْ: نَعْجِبُ مِنْھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِِ! قَالَ: ((اَفَلَا اُنْذِرُکُمْ بِاَعْجَبَ مِنْ ذٰلِکَ؟ رَجُلٌ مِنْ اَنْفُسِکُمْ یُنَبِّئُکُمْ بِمَا کَانَ قَبْلَکُمْ وَ مَا کَانَ ھُوَ کَائِنٌ بَعْدَکُمْ، فَاسْتَقِیْمُوْا وَسَدِّدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَا یَعْبَاُ بِعَذَابِکُمْ شَیْئًا، وَ سَیَاْتِیْ قَوْمٌ لَا یَدْفَعُوْنَ عَنْ اَنْفُسِھِمْ بِشَیْئٍ۔)) (مسند احمد: ۱۸۱۹۲)

سیدنا ابو کبشہ انماری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران لوگوں نے (ثمود کی منازل) حِجر کی طرف جلدی کی اور وہ ان میں داخل ہونے لگ گئے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کا پتہ چلا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں میں یہ اعلان کیا: اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ ، وہ کہتے ہیں: جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اونٹ کو روکا ہوا تھا اور فرما رہے تھے: تم ایسی قوم پر کیوں داخل ہوتے ہو، جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا ہے؟ ایک بندے نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیںان سے تعجب ہوتا ہے، اس لیے ان کے پاس جاتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تم کو اس سے زیادہ تعجب والے سے نہ ڈرائو؟ تم میں ہی ایک آدمی ہے، وہ تم کو ان کی امور کی بھی خبر دیتا ہے، جو تم سے پہلے گزر گئے ہیں اور ان امور کی بھی، جو تم سے بعد میں ہونے والے ہیں، پس تم سیدھے ہو جاؤ اور راہِ صواب پر چلتے رہو، پس بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے عذاب کی پرواہ نہیں کرے گے اور عنقریب ایسے لوگ آئیں گے، جو کسی چیز کو اپنے نفسوں سے دفع نہیں کریں گے۔

۔ (۱۰۹۳۳)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَۃَ أَنَّ مُعَاذًا أَخْبَرَہُ: أَنَّہُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ تَبُوکَ، فَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَجْمَعُ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، قَالَ: وَأَخَّرَ الصَّلَاۃَ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّی الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِیعًا، ثُمَّ دَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ جَمِیعًا، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّکُمْ سَتَأْتُونَ غَدًا إِنْ شَائَ اللّٰہُ عَیْنَ تَبُوکَ، وَإِنَّکُمْ لَنْ تَأْتُوا بِہَا حَتّٰییَضْحَی النَّہَارُ، فَمَنْ جَائَ فَلَا یَمَسَّ مِنْ مَائِہَا شَیْئًا حَتّٰی آتِیَ۔)) فَجِئْنَا وَقَدْ سَبَقَنَا إِلَیْہَا رَجُلَانِ، وَالْعَیْنُ مِثْلُ الشِّرَاکِ تَبِضُّ بِشَیْئٍ مِنْ مَائٍ، فَسَأَلَہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ہَلْ مَسِسْتُمَا مِنْ مَائِہَا شَیْئًا؟)) فَقَالَا: نَعَمْ، فَسَبَّہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ لَہُمَا مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَقُولَ، ثُمَّ غَرَفُوا بِأَیْدِیہِمْ مِنَ الْعَیْنِ قَلِیلًا قَلِیلًا حَتَّی اجْتَمَعَ فِی شَیْئٍ، ثُمَّ غَسَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِ وَجْہَہُ وَیَدَیْہِ، ثُمَّ أَعَادَہُ فِیہَا فَجَرَتِ الْعَیْنُ بِمَائٍ کَثِیرٍ، فَاسْتَقَی النَّاسُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یُوشِکُیَا مُعَاذُ! إِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ، أَنْ تَرٰی مَائً ہَاہُنَا قَدْ مَلَأَ جِنَانًا۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۲۰)

سیدنا ابو طفیل عامر بن واثلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو خبردی کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں غزوۂ تبوک کے موقع پر سفر پر روانہ ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کو مؤخر کیا اور خیمہ سے باہر تشریف لائے اور ظہر و عصر کی نماز یںجمع کر کے ادا کیں، پھر اندر تشریف لے گئے، پھرباہر تشریف لائے اور مغرب وعشاء کو جمع کر کے ادا کیا، پھر ارشاد فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم کل خوب دن چڑھے تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے، تم میں سے جو کوئی وہاں پہنچ جائے تو وہ میرے آنے تک پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم سے پہلے دو آدمی وہاں پہنچ چکے تھے اور چشمہ سے تسمہ کی مانند پانی کی باریک دھار نکل رہی تھی اور پانی انتہائی قلیل مقدار میں آرہا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں سے دریافت کیا کہ کیا تم نے پانی کو ہاتھ لگایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں کو بہت برا بھلا کہا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جو کچھ کہہ سکتے تھے ان سے کہا، اس کے بعد صحابہ کرام نے اپنے ہاتھوں کے ذریعے چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی جمع کر کے ایک برتن میں کچھ پانی اکٹھا کر لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں اپنا چہرہ مبارک اور ہاتھ دھوئے اور اس دھوون کو اس میں واپس ڈال دیا، پھر تو اس چشمہ سے کثیر مقدار میں پانی نکلنے لگا، لوگ خوب سیراب ہوئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے معاذ! اگر تجھے زندگی ملی تو تو دیکھے گا کہ یہ صحراء باغات سے بھرا ہو گا۔

۔ (۱۰۹۳۴)۔ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ أَوْ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ شَکَّ الْأَعْمَشُ قَالَ: لَمَّا کَانَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ، أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَۃٌ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوْ أَذِنْتَ لَنَا فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا فَأَکَلْنَا وَادَّہَنَّا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((افْعَلُوا۔)) فَجَائَ عُمَرُ: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُمْ إِنْ فَعَلُوا قَلَّ الظَّہْرُ، وَلٰکِنْ ادْعُہُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِہِمْ، ثُمَّ ادْعُ لَہُمْ عَلَیْہِ بِالْبَرَکَۃِ، لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَ فِی ذٰلِکَ، فَدَعَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنِطَعٍ فَبَسَطَہُ، ثُمَّ دَعَاہُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِہِمْ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِکَفِّ الذُّرَۃِ، وَالْآخَرُ بِکَفِّ التَّمْرِ، وَالْآخَرُ بِالْکِسْرَۃِ، حَتَّی اجْتَمَعَ عَلَی النِّطْعِ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌیَسِیرٌ، ثُمَّ دَعَا عَلَیْہِ بِالْبَرَکَۃِ، ثُمَّ قَالَ لَہُمْ: ((خُذُوا فِی أَوْعِیَتِکُمْ۔)) قَالَ: فَأَخَذُوا فِی أَوْعِیَتِہِمْ حَتّٰی مَا تَرَکُوا مِنَ الْعَسْکَرِ وِعَائً إِلَّا مَلَئُوہُ وَأَکَلُوا حَتّٰی شَبِعُوا وَفَضَلَتْ مِنْہُ فَضْلَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ، لَا یَلْقَی اللّٰہَ بِہَا عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فَتُحْجَبَ عَنْہُ الْجَنَّۃُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۹۶)

سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سے مروی ہے کہ جب غزوۂ تبوک پیش آیا تو لوگوں شدید بھوک میں مبتلا ہو گئے، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اجازت ہو تو ہم اپنے اونٹوں کو نحر کر کے کھانے کا اور چربی کا انتظام کر لیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ٹھیک ہے۔ لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر لوگوں نے اونٹوں کو نحر کیا تو سواریاں تھوڑی پڑ جائیں گی، آپ انہیں حکم دیں کہ وہ اپنے زائد از ضرورت خوردونوش کا سامان لے آئیں اور آپ ان کے لیے اس میں برکت کی دعا فرمائیں، امید ہے کہ اللہ اس میں برکت فرمائے گا، سو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چمڑے کا دسترخوان منگوا کر اسے بچھا دیا، پھر صحابہ کو بلا کر فرمایا: خوردونوش کا زائد سامان لے آئیں۔ کوئی ایک مٹھی مکئی لایا، کوئی ایک مٹھی کھجور لے آیا اور کوئی روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے لے کر حاضر ہوا، یہاں تک کہ دسترخوان پر کچھ اشیاء جمع ہو گئیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان چیزوں پر برکت کی دعا کی اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تم یہ سامان اپنے برتنوں( اور تھیلوں وغیرہ) میں ڈالو۔ چنانچہ صحابہ کرام اس سامان کو اپنے برتنوں میں بھرنے لگے، یہاں تک کہ انہوں نے پورے لشکر میں جو برتن بھی پایا، اسے بھرلیا، اور خوب پیٹ بھر کر کھا بھی لیا، لیکن پھر بھی اس میں کافی بچ بھی رہا۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، جو آدمی صدقِ دل سے ان دوباتوں کی گواہی دیتا ہو، جب اس کی اللہ سے ملاقات ہو گی تو اسے جنت میں جانے سے روکا نہیں جائے گا۔