سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک والے سال اللہ کے رسول قیام اللیل کے لیے کھڑے ہوئے،صحابہ کرام آپ کا پہرہ دینے کے لیے آپ کے پیچھے جمع ہو گئے، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر ان کی طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا: آج رات مجھے پانچ ایسی خصوصیات سے نوازا گیا ہے کہ مجھ سے پہلے کسی بھی نبی کو وہ خصوصیات عطا نہیں کی گئیں، مجھے روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا گیا ہے، مجھ سے پہلے محض اپنی اپنی قوم کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیے جاتے تھے، دشمن پر رعب اور ہیبت کے ذریعے میریمدد کی گئی ہے، اگر چہ میرے اور اس کے درمیان ایک ماہ کی مسافت کیوں نہیں ہو، وہ اس کے باوجود مرعوب ہو جاتا ہے اور میرے لیے غنیمتیں حلال کر دی گئی ہیں اور میں اور میری امت اس مال کو کھا سکتے ہیں اور پوری زمین کو میرے لیے مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، مجھے جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے تو تیمم کر کے نماز ادا کر سکتا ہوں، مجھ سے پہلے لوگ اس خصوصیت سے محروم تھے، وہ اپنے گرجا گھروں اور مقررہ عبادت گاہوں میں ہی نماز ادا کر سکتے تھے اور پانچویں خصوصیت کے تو کیا ہی کہنے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے کہا گیا کہ آپ سوال کریں، ہر نبی اللہ تعالیٰ سے درخواست کر چکا ہے، تو میں نے اپنی درخواست کو قیامت کے دن تک مؤخر کر دیا ہے، میرییہ درخواست تمہارے حق میں اور ہر اس آدمی کے حق میں ہو گی جو صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہو۔
ابو ہمام شعبانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بنو خثعم کے ایک شخص نے مجھے بیان کیا کہ ہم غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات کو قیام کیا، صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب اکٹھے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آج رات مجھے فارس اور روم کے دو خزانے عطا فرما دئیے ہیں اور سرخ رنگ کے شاہانِ حمیر کے ذریعہ میری مدد فرمائی ہے، درحقیقت بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، یہ بادشاہ آتے ہیں اور اللہ کا مال لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
سیدنا ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبوک سے واپس ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا اور اس نے اعلان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہاڑ کے اوپر والا راستہ اختیار کریں گے، لہٰذا کوئی دوسراآدمییہ راستہ اختیار نہ کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے آگے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ او رپیچھے پیچھے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ تھے، منہ چھپائے اونٹوں پر سوار کچھ لوگ اچانک آگئے اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ پر ازدحام کر لیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹ کو ہانک رہے تھے، سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے ان حملہ آوروں کے اونٹوں کے مونہوں پر مارنا شروع کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: بس، بس۔ یہاں تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے اتر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نیچے اترے تو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ واپس آگئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمار ! کیا آپ نے ان لوگوں کو پہنچانا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں اکثر اونٹوں کو تو پہچان چکا ہوں، البتہ وہ لوگ منہ چھپائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ ان کا کیا ارادہ تھا؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کا ارادہ تھا کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الگ کر کے لے جائیں اور ان کو نیچے گرا دیں، سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے چپکے سے ایک صحابی سے بات کی اور پوچھا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ ان لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ اس نے کہا: چودہ، انہوں نے کہا کہ اگر تم بھی انہی میں سے ہو تو یہ کل تعداد پندرہ ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے تین آدمیوں کا نام لیا، جنہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم نے اللہ کے رسول کی طرف سے اعلان کرنے والے کا اعلان نہیں سنا تھا، اور نہ ہی ہمیں ان لوگوں کے ارادہ کا علم تھا۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے باقی پندرہ آدمی سب ہی دنیا اور آخرت میں اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں۔ ولید نے کہا کہ سیدنا ابو طفیل رضی اللہ عنہ نے اس غزوہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جب پانی کی قلت کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا اور اعلان کرایا کہ اللہ کے رسول سے پہلے کوئی آدمی پانی کے قریب نہ جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب پانی کے قریب پہنچے تو آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ تو اس روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر لعن طعن کیا۔