عمر بن کثیر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے مجھے بیان کیا میں غزوۂ تبوک کے موقع پر سواری اور اخراجات کے لحاظ سے جس قدر خوش حال تھا، اس سے قبل کبھی بھی اس قدر خوش حال نہیں تھا، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روانہ ہو گئے تو میں نے سوچا کہ میں کل تیاری کر کے روانہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملوں گا۔ تو میں اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا، تاآنکہ شام ہو گئی اور میں اپنی مصروفیات سے فارغ نہ ہو سکا، میں نے سوچا کہ کوئی بات نہیں، میں کل تیاری کر لوں گا، لوگ ابھی قریب ہی ہیں، پس میں ان سے جا ملوں گا، دوسرے دن بھی شام تک کاموں سے فارغ نہیں ہو سکا، جب تیسرا دن ہوا تو میں پھر کاموں میں مصروف رہا اور شام تک کاموں سے فارغ نہ ہو سکا، میں نے سوچا کہ اب تو دیر ہو گئی، لوگ تین دن سفر کر چکے ہیں،یہ سوچ کر میں نے سفر کا ارادہ ملتوی کر دیا اور یہیں ٹھہرا رہا، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے تو لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرتیں کرنے لگے۔ میں بھی آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا، میں نے عرض کیا میں اس غزوہ کے موقع پر سواری اور اخراجات کے لحاظ سے جس قدر خوشحال تھا، اتنا کسی دوسرے غزوہ کے موقع پر خوش حال نہیں تھا۔ ( یعنی میرا کوئی شرعی عذر نہیں تھا، بلکہ غفلت ہوئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے منہ موڑ لیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو حکم صادر فرمایا کہ کوئی بھی شخص ہمارے ساتھ کلام نہ کرے۔ اور ہماری بیویوں کو ہم سے الگ رہنے کا حکم دیا گیا۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انہی ایام میں میں ایک دن باغ کی دیوار پر چڑھ کر سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور میں نے کہا: اے جابر ! میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تمہارے علم میں ہے کہ میں نے کبھی اللہ اور اس کے رسول کو دھوکہ دیا ہو؟ وہ میری بات سن کر خاموش رہے اور مجھ سے کو ئی بات نہیں کی۔ میں اسی طرح دن گزار رہا تھا کہ ایک دن پہاڑ کی گھاٹی کی طرف سے میں نے ایک آدمی کو سنا جو میرا نام لے کر کعب کعب پکار رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ میرے قریب آگیا اور کہنے لگا کہ کعب رضی اللہ عنہ کو خوشخبری دو۔
عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ قبول کی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا: اللہ نے مجھے محض سچ بولنے کی برکت سے اس آزمائش سے نجات دی ہے، اب میری توبہ میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ میں آئندہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولوں گا اور میں اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خدمت میں بطور صدقہ پیش کر دوں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اپنا کچھ مال رکھ لو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے کہا: جی میں خیبر سے ملنے والا حصہ رکھ لیتا ہوں۔