مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قیادت میں حج کی ادائیگی اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اہلِ مکہ کی طرف اعلانِ براء ت کے لیے روانہ کئے جانے کا بیان

۔ (۱۰۹۵۵)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ عَشْرُ آیَاتٍ مِنْ بَرَائَ ۃٍ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَبَعَثَہُ بِہَا لِیَقْرَأَہَا عَلٰی أَہْلِ مَکَّۃَ، ثُمَّ دَعَانِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِی: ((أَدْرِکْ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَحَیْثُمَا لَحِقْتَہُ فَخُذِ الْکِتَابَ مِنْہُ، فَاذْہَبْ بِہِ إِلٰی أَہْلِ مَکَّۃَ فَاقْرَأْہُ عَلَیْہِمْ۔)) فَلَحِقْتُہُ بِالْجُحْفَۃِ فَأَخَذْتُ الْکِتَابَ مِنْہُ، وَرَجَعَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَزَلَ فِیَّ شَیْئٌ؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنَّ جِبْرِیلَ جَائَ نِیْ فَقَالَ: لَنْ یُؤَدِّیَ عَنْکَ إِلَّا أَنْتَ أَوْ رَجُلٌ مِنْکَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۹۷)

سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب سورۂ براء ت کی دس آیات نازل ہوئیں تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا اور ان کو یہ آیات دے کر بھیجا کہ وہ مکہ والوں کے سامنے ان کی تلاوت کریں، پھر میں (علی) کو بلایا اور فرمایا: ابو بکر کو جا ملو، جہاں بھی تم ان کو ملو، ان سے یہ پیغام لے لینا اور پھر اہل مکہ کے سامنے جا کر پڑھ دینا۔ پس میں نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حجفہ میں جا ملا اور ان سے خط لے لیا۔ پھر جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لوٹے تو پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا میرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، کوئی حکم نہیں ہے، بس جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا کہ پیغامیا تو آپ خود پہنچائیںیا آپ کے خاندان کا کوئی آدمی پہنچائے۔

۔ (۱۰۹۵۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: کُنْتُ مَعَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ حَیْثُ بَعَثَہٗرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی اَھْلِ مَکَّۃَ بِبَرَائَۃٍ، فَقَالَ: مَا کُنْتُ تُنَادُوْنَ؟ قَالَ: کُنَّا نُنَادِیْ اَنْ لَّا یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مُوْمِنٌ وَلَا یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَمَنْ کَانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَہْدٌ، فَاِنَّ اَجَلَہٗاَوْاَمَدَہٗاِلٰی اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ، فَإِذَا مَضَتِ الْاَرْبَعَۃُ الْاَشْہُرُ، فَاِنَّ اللّٰہَ بَرِیْئٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہُ، وَلَا یَحُجُّ ھٰذَا الْبَیْتَ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ، قَالَ: فَکُنْتُ اُنَادِیْ حَتّٰی صَحَلَ صَوْتِیْ۔ (مسند احمد: ۷۹۶۴)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو براء ت کا اعلان کرنے کے لیے اہلِ مکہ کی طرف روانہ کیا تو میں بھی سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہم راہ تھا، محرر کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کیا اعلان کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: ہم یہ اعلان کرتے تھے کہ صرف اہل ایمان ہی جنت میں جائیں گے اور آئندہ کوئی شخص برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا اور جس آدمی کا بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کسی قسم کا کوئی عہد ہے تو اس کی مدت چار ماہ ہے، چار ماہ کے بعد اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے یکسر لا تعلق ہو جائیں گے، اس سال کے بعد آئندہ کوئی مشرک بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکے گا۔ میں اس قدر بلند آواز سے اعلان کرتا تھا کہ میری آواز بیٹھ گئی۔

۔ (۱۰۹۵۷)۔ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَ بِبَرَائَ ۃٍ مَعَ اَبِیْ بَکْرٍ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَا الْحُلَیْفَۃِ قَالَ: ((لَا یَبْلُغُہَا اِلَّا اَنَا اَوْ رَجْلٌ مِنْ اَھْلِ بَیْتِیْ۔)) فَبَعَثَ بِہَا مَعَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۱۳۲۴۶)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ اعلانِ براء ت کے لیے روانہ کیا، جب وہ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل مکہ کے سامنے یہ اعلان میں خود یا میرے اہل بیت میں سے کوئی کر سکتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ پیغام دے کر سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کے پیچھے روانہ فرمایا۔