سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مرض الموت میں مبتلا تھے، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز کی اطلاع دینے آئے، ان کی طرف سے دوسری مرتبہ اطلاع کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! تم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی، جو نماز پڑھنا چاہے گا، پڑھ لے گا اور جو چاہے گا وہ چھوڑ دے گا۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ کی طرف واپس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں، لوگوں کو نماز کون پڑھائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے پردے ہٹا دئیے گئے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سفید کاغذ کی مانند (انتہائی سفید، چمک دار) تھا، اور آپ پر ایک سیاہ دھاری دار چادر تھی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا کہ وہ کھڑے رہیں اور نماز پڑھائیں، چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، ہم اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نہیں کر سکے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سوموار کا دن تھا، ایک روایت میں ہے کہ میں نے سوموار کے دن آخری مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرے کا پردہ ہٹا کر دیکھا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کو دیکھا، وہ قرآنی ورق کی مانند انتہائی حسین تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا رہے تھے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیکھنے کی خوشی میں نماز کے اندر ہی فرط مسرت سے فتنہ میں مبتلا ہونے کے قریب ہو گئے، مراد یہ ہے کہ آپ کو صحت یاب دیکھ کر ہمیں اس قدر خوشی ہوئی کہ قریب تھا کہ ہم نماز توڑ بیٹھتے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ نماز تم ہی پڑھاؤ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ نیچے گرا دیا اور اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح پرواز کر گئی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وہی کیفیت طاری کی ہے، جیسے موسیٰ علیہ السلام چالیس راتیں اپنی قوم سے الگ تھلگ رہے تھے۔ اللہ کی قسم ! مجھے توقع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منافقین کے ہاتھ اور زبانیں کاٹنے تک زندہ رہیں گے، وہ تو کہہ رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے۔
سیدہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گھر میں ایک کپڑے میں لپٹ کر ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور سورۂ مرسلات کی تلاوت کی، اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی، حتی کہ فوت ہو گئے۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے نام کی قسم اُٹھائی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے آخری ملاقات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ہوئی تھی، ہم روزانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیمارداری کیا کرتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار دریافت فرماتے کہ علی رضی اللہ عنہ آئے ہیں؟ سیدہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کسی کام کے لیے بھیجا ہوا تھا، چنانچہ وہ تشریف لے آئے، میں سمجھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سے کوئی کام ہے، ہم کمرے سے نکل کر دروازے کے قریب بیٹھ گئیں۔ میں سب سے زیادہ کمرے کے دروازے کے قریب تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر جھک سے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ راز داری کے ساتھ سر گوشی سی کرنے لگے اور اسی دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہو گیا، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے آخری ملاقات علی رضی اللہ عنہ کی تھی۔
عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب اپنی والدہ سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الموت کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں گئی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے بارے میں کیا رائے ہے؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری کا سبب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اور تو کسی چیز پر شک نہیں، البتہ جو کھانا میں نے خیبر میں کھایا تھا، ( یہ اس کا اثر معلوم ہوتا ہے۔) ام مبشر رضی اللہ عنہا کا بیٹا( مبشر رضی اللہ عنہ ) بھی اس کھانے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا اور اسی زہریلے کھانے کے سبب سے اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ تو مجھے کسی اور چیز پر شک نہیں، اب میری شہ رگ کے کٹنے کا یعنی زندگی کا آخری وقت آچکا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اس بات کی تو نو بار قسمیں اُٹھاؤں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہوئے ہیں، مجھے یہ بات اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک قسم اُٹھا کر یوں کہوں کہ آپ شہید نہیں ہوئے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کونبی اور شہید بنایا ہے، حدیث کے ایک راوی اعمش کہتے ہیں:جب میں نے اس بات کا ذکر اپنے شیخ ابراہیم تیمی سے کیا تو انہوں نے کہا کہ علماء کا خیال ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو زہر دیا تھا۔