مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا موت کے سکرات سے واسطہ پڑنا، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیئے جانے اور آپ کے رفیق اعلیٰ کو منتخب کرنے کا بیان اور اس بات کا ذکر کہ یہ آخری الفاظ تھے جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوئے

۔ (۱۱۰۲۲)۔ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَابْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ أَبِی الضُّحٰی عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعَوِّذُ بِہٰذِہِ الْکَلِمَاتِ: ((أَذْہِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ! اِشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا۔)) قَالَتْ: فَلَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ أَخَذْتُ بِیَدِہِ فَجَعَلْتُ أَمْسَحُہُ بِہَا وَأَقُولُہَا، قَالَتْ: فَنَزَعَ یَدَہُ مِنِّی، ثُمَّ قَالَ: ((رَبِّ اغْفِرْ لِی وَأَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ۔)) قَالَ أَبُو مُعَاوِیَۃَ: قَالَتْ: فَکَانَ ہٰذَا آخِرَ مَا سَمِعْتُ مِنْ کَلَامِہِ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: إِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ إِذَا عَادَ مَرِیضًا مَسَحَہُ بِیَدِہِ وَقَالَ: ((أَذْہِبْ……۔)) (مسند احمد: ۲۴۶۸۶)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیماروں کو ان الفاظ کے ساتھ دم کیا کرتے تھے: أَذْہِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ! اِشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا (اے لوگوں کے رب !بیماری کو دور فرما، شفاء عطا کر، تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیری شفاء کے سوا کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء دے جو تمام بیماریوں کو ختم کر دے۔) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرض الموت میں شدید بیمار ہوئے تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ تھام کر اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جسد مبارک پر پھیرتی اور ان کلمات کو زبان سے ادا کرتی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور فرمایا: اے میرے رب! میری مغفرت فرما اور مجھے رفیق اعلی کے ساتھ ملا دے۔ امام احمد کے شیخ ابو معاویہ نے کہا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ یہ آخری الفاظ تھے، جو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنے۔ امام احمد کے دوسرے استاذ ابن جعفر نے یوں کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی مریض کی بیمار پرسی کرتے تو اپنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرتے اور یہ دعا فرماتے: أَذْہِبْ……۔

۔ (۱۱۰۲۳)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَیْتِی وَیَوْمِی وَبَیْنَ سَحْرِی وَنَحْرِی، فَدَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ وَمَعَہُ سِوَاکٌ رَطْبٌ فَنَظَرَ إِلَیْہِ، فَظَنَنْتُ أَنَّ لَہُ فِیہِ حَاجَۃً، قَالَتْ: فَأَخَذْتُہُ فَمَضَغْتُہُ وَنَفَضْتُہُ وَطَیَّبْتُہُ ثُمَّ دَفَعْتُہُ إِلَیْہِ،فَاسْتَنَّ کَأَحْسَنِ مَا رَأَیْتُہُ مُسْتَنًّا قَطُّ، ثُمَّ ذَہَبَ یَرْفَعُہُ إِلَیَّ فَسَقَطَ مِنْ یَدِہِ فَأَخَذْتُ أَدْعُو اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ بِدُعَائٍ، کَانَ یَدْعُو لَہُ بِہِ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام، وَکَانَ ہُوَ یَدْعُوْ بِہِ إِذَا مَرِضَ، فَلَمْ یَدْعُ بِہِ فِی مَرَضِہِ ذٰلِکَ، فَرَفَعَ بَصَرَہُ إِلَی السَّمَائِ وَقَالَ: ((الرَّفِیقُ الْأَعْلَی، الرَّفِیقُ الْأَعْلَی۔)) یَعْنِی وَفَاضَتْ نَفْسُہُ، فَالْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی جَمَعَ بَیْنَ رِیقِی وَرِیقِہِ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ أَیَّامِ الدُّنْیَا۔ (مسند احمد: ۲۴۷۲۰)

ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال میرے گھر میں اور میری باری کے دن ہوا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے سینہ اور گردن کے درمیان تھے، اس وقت میرے بھائی سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، ان کے پاس ایک تازہ مسواک تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس مسواک کی طرف دیکھا، میں سمجھ گئی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مسواک کی ضرورت ہے۔ میں نے ان سے مسواک لے کر اسے چبا یا اور جھاڑ کر صاف کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے خوبصورت انداز سے مسواک کی کہ میں نے کبھی اس طرح خوبصورت انداز سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مسواک کرتے نہیں دیکھا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ مجھے پکڑانے لگے تو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ سے چھوٹ گئی، میں نے اسے اُٹھا یا اور میں اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کرنے لگی جو دعا جبریل علیہ السلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے کیا کرتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی جب کبھی بیمار ہوتے تو وہی دعا پڑھا کرتے تھے۔ لیکن اس بیماری میں آپ نے وہ دعا نہیں پڑھی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر فرمایا: رفیقِ اعلی، رفیقِ اعلی۔ اور ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح پرواز کر گئی، اللہ کا بڑاشکر ہے، جس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آخری دن میرے لعاب کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لعاب کے ساتھ جمع کر دیا۔

۔ (۱۱۰۲۴)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا قَالَتْ فَاطِمَۃُ: ذٰلِکَ یَعْنِی لَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ کَرْبِ الْمَوْتِ مَا وَجَدَ، قَالَتْ فَاطِمَۃُ: وَا کَرْبَاہُ! قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا بُنَیَّۃُ! إِنَّہُ قَدْ حَضَرَ بِأَبِیکِ مَا لَیْسَ اللّٰہُ بِتَارِکٍ مِنْہُ أَحَدًا لِمُوَافَاۃِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۶۱)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر موت کے آثار نمودار ہوئے، تو سیدہ فاطمۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بے اختیار کہنے لگیں: ہائے مصیبت! تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیٹی ! تمہارے باپ پر اب وہ وقت آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک کسی کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کرے گا۔

۔ (۱۱۰۲۵)۔ أَخْبَرَنَا شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: قَالَ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ: إِنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ صَحِیحٌیَقُولُ: ((إِنَّہُ لَمْ یُقْبَضْ نَبِیٌّ قَطُّ، حَتّٰییَرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ۔)) ثُمَّ یُحَیَّا فَلَمَّا اشْتَکٰی، وَحَضَرَہُ الْقَبْضُ، وَرَأْسُہُ عَلٰی فَخْذِ عَائِشَۃَ، غُشِیَ عَلَیْہِ، فَلَمَّا أَفَاقَ شَخَصَ بَصَرَہُ نَحْوَ سَقْفِ الْبَیْتِ، ثُمَّ قَالَ: ((اللَّہُمَّ الرَّفِیقَ الْأَعْلٰی۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقُلْتُ: إِنَّہُ حَدِیثُہُ الَّذِی کَانَ یُحَدِّثُنَا وَہُوَ صَحِیحٌ۔ (مسند احمد: ۲۵۰۹۰)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا جنت میں جو مقام ہے، اس کی وفات سے قبل اسے وہ دکھا دیا جاتا ہے۔ پھر اسے دنیا اورآخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بیمار ہوئے اور وفات کا وقت قریب آیا، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ران پر تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غشی طاری ہوئی، پھر جب افاقہ ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کمرے کی چھت کی طرف نظر اُٹھائی اور فرمایا: اے اللہ! رفیق اعلی میں منتقل ہونا چاہتا ہوں۔ میں جان گئی کہ یہ اسی بات پر عمل ہوا ہے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے اپنی صحت کے دنوں میں بیان کیا کرتے تھے۔

۔ (۱۱۰۲۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا مِنْ نَبِیٍّیَمْرَضُ إِلَّا خُیِّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) قَالَتْ: فَلَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَرَضَ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ، أَخَذَتْہُ بُحَّۃٌ، فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء ِ وَالصَّالِحِینَ۔} قَالَتْ: فَعَلِمْتُ أَنَّہُ خُیِّرَ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۵۰)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ جب بھی کوئی نبی بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھانسی آئی، پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء ِ وَالصَّالِحِینَ۔} ان انبیائ، اصدقائ،شہداء اور صلحاء کے ساتھ، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا۔ میں یہ سن کر جان گئی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دنیااور آخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ( اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آخرت کا انتخاب کیا ہے۔ )

۔ (۱۱۰۲۷)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا تُقْبَضُ نَفْسُہُ، ثُمَّ یَرَی الثَّوَابَ، ثُمَّ تُرَدُّ إِلَیْہِ، فَیُخَیَّرُ بَیْنَ أَنْ تُرَدَّ إِلَیْہِ إِلٰی أَنْ یَلْحَقَ۔)) فَکُنْتُ قَدْ حَفِظْتُ ذٰلِکَ مِنْہُ فَإِنِّی لَمُسْنِدَتُہُ إِلٰی صَدْرِی، فَنَظَرْتُ إِلَیْہِ حَتّٰی مَالَتْ عُنُقُہُ، فَقُلْتُ: قَدْ قَضٰی، قَالَتْ: فَعَرَفْتُ الَّذِی قَالَ، فَنَظَرْتُ إِلَیْہِ حَتَّی ارْتَفَعَ فَنَظَرَ، قَالَتْ: قُلْتُ: إِذَنْ وَاللّٰہِ لَا یَخْتَارُنَا فَقَالَ: ((مَعَ الرَّفِیقِ الْأَعْلٰی فِی الْجَنَّۃِ، {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمَ مِنْ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۵۸)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ( اپنی حیات طیبہ میں) فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کی روح کچھ دیر کے لیے قبض کر کے اسے اس کا ثواب دکھانے کے بعد اس کی روح کو لوٹا دیا جاتا ہے، اور اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اب دنیا اور آخرت میں سے جس کا چاہیں، انتخاب کر لیں۔ مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئییہ بات یاد تھی۔ مرض الموت کے دوران میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گردن ڈھلک گئی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھا تو میں سمجھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے ہیں، مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی فرمائی ہوئی بات یاد آ گئی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طبیعت سنبھل گئی، میں جان گئی کہ اب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارا انتخاب نہیں کریں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء ِ وَالصَّالِحِینَ۔} ان انبیائ، اصدقائ،شہداء اور صلحاء کے ساتھ، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا۔ آیت کے آخر تک۔

۔ (۱۱۰۲۸)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ: کُنْتُ أَسْمَعُ لَا یَمُوتُ نَبِیٌّ إِلَّا خُیِّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، قَالَتْ: فَأَصَابَتْہُ بُحَّۃٌ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ، فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیقًا} فَظَنَنْتُ أَنَّہُ خُیِّرَ۔ (مسند احمد: ۲۶۲۲۰)

۔( دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنتی رہتی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اورآخرت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ مرض الموت کے دوران ایک دفعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھانسی آئی اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیقًا} … ان انبیائ، اصدقائ،شہداء اور صلحاء کے ساتھ، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا،یہ لوگ بلحاظ رفاقت کے کتنے اچھے ہیں۔ پس میں جان گئی کہ آپ کو دنیا وآخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

۔ (۱۱۰۲۹)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) قَالَتْ: رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہٗقَدَحٌفِیْہِ مَائٌ، فَیُدْخِلُیَدَہُ فِی الْقَدَحِ، ثُمَّ یَمْسَحُ وَجْہَہُ بِالْمَائِ، ثُمَّ یَقُوْلُ: ((اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۸۶۰)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا، پانی کا پیالہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب رکھا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنا ہاتھ پیالے میں ڈال کر اسے گیلا کر کے اپنے چہرہ اقدس پر پھیرتے اور یہ دعا کر تے جا رہے تھے: اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ (اے اللہ! موت کی سختیوں میںمیری مدد فرما۔)

۔ (۱۱۰۳۰)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) قٰلَتْ: تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَوْ قُبِضَ اَوْ مَاتَ وَھُوَ بَیْنَ حَاقِنَتِیْ وَذَاقِنَتِیْ، فَلَا اَکْرَہُ شِدَّۃَ الْمَوْتِ لِاَحَدٍ اَبَدًا بَعْدَ الَّذِیْ رَاَیْتُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۴۹۸۷)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات اس حال میں ہوئی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے سینہ اور گردن کے درمیان تھے، چونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حالت نزع کی شدت کو دیکھا ہے، لہذا اب میں کسی کے لیے موت کی سختی کو ناپسند نہیں کرتی۔

۔ (۱۱۰۳۱)۔ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: ثَنَا رِبَاحٌ قَالَ: قُلْتُ لِمَعْمَرٍ: قُبِضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ جَالِسٌ؟ قاَلَ: نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۸۳)

رباح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے معمر سے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال اس حال میں ہوا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھے ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ۔

۔ (۱۱۰۳۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَمِیْصَۃٌ سَوْدَائُ حِیْنَ اشْتَدَّ بِہِ وَجَعُہُ، قَالَتْ: فَہُوْ یَضَعُہَا مَرَّۃً عَلٰی وَجْہِہِ وَمَرَّۃًیَکْشِفُہَا عَنْہُ وَیَقُوْلُ: ((قَاتَلَ اللّٰہُ قَوْمًا اتِّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ۔)) یُحَرِّمُ ذٰلِکَ عَلٰی اُمَّتِہِ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۸۲)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سیاہ چادر زیب تن کیے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کبھی اسے اپنے چہرے پر ڈالتے اور کبھی ہٹا لیتے اور فرماتے: اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرے، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا۔ دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ ارشاد فرما کر اپنی امت کے لیے اس کام کو حرام قرار دے رہے تھے۔

۔ (۱۱۰۳۳)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ تُوُفِّیَ سُجِّیَ بِثَوْبِ حِبَرَۃٍ۔ (مسند احمد: ۲۵۰۸۸)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک دھاری دار چادر میں ڈھانپ دیا گیا۔

۔ (۱۱۰۳۴)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًا) قَالَتْ: قُبِضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَاْسُہُ بَیْنَ سَحْرِیْ وَنَحْرِیْ، قَالَتْ: فَلَمَّا خَرَجَتْ نَفْسُہُ لَمْ اَجِدْ اَطْیَبَ مِنْہَا۔ (مسند احمد: ۲۵۴۱۷)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال اس حال میں ہوا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک میرے سینے اور گردن کے درمیان تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح پروراز کر گئی تو اس سے عمدہ کیفیت میں نے کسی کی نہیں دیکھی۔

۔ (۱۱۰۳۵)۔ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ، فَأَخْرَجَتْ إِلَیْنَا إِزَارًا غَلِیظًا مِمَّا صُنِعَ بِالْیَمَنِ، وَکِسَائً مِنَ الَّتِییَدْعُونَ الْمُلَبَّدَۃَ، قَالَ بَہْزٌ: تَدْعُونَ، فَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُبِضَ فِی ہٰذَیْنِ الثَّوْبَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۵۵۱۱)

سیدنا ابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گیا، انہوں نے ہمیںیمن میں تیار ہونے والی ایک موٹی سی چادر اور ایک ایسی چادر نکال کر دکھائی جسے تم لوگ مُلَبَّدَۃ کہتے ہو اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ دو چادریں زیب تن کئے ہوئے تھے۔

۔ (۱۱۰۳۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّہُ لَیُہَوَّنُ عَلَیَّ أَنِّی رَأَیْتُ بَیَاضَ کَفِّ عَائِشَۃَ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۵۹۰)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے لیےیہ امر اطمینان بخش ہے کہ میں نے عائشہ کی ہتھیلی کی سفیدی جنت میں دیکھی ہے۔