مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

صحابہ کرام اور اہل بیت پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کا اثر، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح قبض ہونے پر ان کے دہشت زدہ ہونے، رونے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انتقال کے بعد سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بوسہ دینے کا بیان

۔ (۱۱۰۳۷)۔ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُحَدِّثُ: أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ تُوُفِّیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَزِنُوا عَلَیْہِ، حَتّٰی کَادَ بَعْضُہُمْ یُوَسْوِسُ، قَالَ عُثْمَانُ: وَکُنْتُ مِنْہُمْ فَبَیْنَا أَنَا جَالِسٌ فِی ظِلِّ أُطُمٍ مِنَ الْآطَامِ، مَرَّ عَلَیَّ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَسَلَّمَ عَلَیَّ فَلَمْ أَشْعُرْ أَنَّہُ مَرَّ وَلَا سَلَّمَ، فَانْطَلَقَ عُمَرُ حَتّٰی دَخَلَ عَلٰی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ لَہُ: مَا یُعْجِبُکَ أَنِّی مَرَرْتُ عَلٰی عُثْمَانَ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ السَّلَامَ، وَأَقْبَلَ ہُوَ وَأَبُو بَکْرٍ فِی وِلَایَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی سَلَّمَا عَلَیَّ جَمِیعًا، ثُمَّ قَالَ أَبُو بَکْرٍ: جَائَنِی أَخُوکَ عُمَرُ فَذَکَرَ أَنَّہُ مَرَّ عَلَیْکَ فَسَلَّمَ فَلَمْ تَرُدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ، فَمَا الَّذِی حَمَلَکَ عَلٰی ذٰلِکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا فَعَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلٰی وَاللّٰہِ! لَقَدْ فَعَلْتَ وَلٰکِنَّہَا عُبِّیَّتُکُمْیَا بَنِی أُمَیَّۃَ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ مَا شَعَرْتُ أَنَّکَ مَرَرْتَ وَلَا سَلَّمْتَ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: صَدَقَ عُثْمَانُ وَقَدْ شَغَلَکَ عَنْ ذٰلِکَ أَمْرٌ، فَقُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: مَا ہُوَ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: تَوَفَّی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِیَّہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَہُ عَنْ نَجَاۃِ ہٰذَا الْأَمْرِ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: قَدْ سَأَلْتُہُ عَنْ ذٰلِکَ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَیْہِ، فَقُلْتُ لَہُ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی أَنْتَ أَحَقُّ بِہَا، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا نَجَاۃُ ہٰذَا الْأَمْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ قَبِلَ مِنِّی الْکَلِمَۃَ الَّتِی عَرَضْتُ عَلٰی عَمِّی فَرَدَّہَا عَلَیَّ فَہِیَ لَہُ نَجَاۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۰)

سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو بعض صحابہ پر اس کا شدید اثر ہوا اور قریب تھا کہ ان میں سے بعض کی حالت غیر ہو جاتی، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھا، میں ایک مکان کے سائے میں بیٹھا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس سے گزرے، انہوں نے مجھے سلام کہا، لیکن مجھے ان سے گزرنے اور سلام کہنے کا علم ہی نہیں ہوا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے شکایت کی اور کہا: کیایہ بات آپ کے لیے تعجب انگیز نہیں کہ میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرا، میں نے انہیں سلام کہا، لیکن انہوں نے سلام کا جواب تک نہیں دیا۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خلیفہ منتخب ہو چکے تھے، وہ دونوں میرے پاس آئے، دونوں نے مجھے سلام کہا اور پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تمہارے بھائی عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میرے پاس آکر شکایت کی ہے کہ وہ تمہارے پاس سے گزرے اور سلام کہا، مگر آپ نے انہیں سلام کا جواب نہیں دیا، اس کی کیا وجہ تھی؟ میں نے عرض کیا:میں نے تو ایسا کیا ہی نہیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کی قسم ! میں نے سلام کہا ہے اور آپ نے جواب نہیں دیا، اے بنو امیہ! یہ تمہاری متکبرانہ عادت ہے، میں نے عرض کیا:اللہ کی قسم! مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ آپ میرے پاس سے گزرے ہوں یا سلام کہا ہو۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ درست کہتے ہیں، آپ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جدائی کا غم تھا، اس لیے آپ ادھر توجہ نہیں دے سکے، میں نے بھی کہا: جی ہاں ایسے ہی ہے، انہوں نے کہا، کیا ؟ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو موت دے دی اور ہم آپ سے یہ تو دریافت ہی نہیں کر سکے کہ قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات کیسے ہو گی؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں دریافت کر چکا ہو ں، پس میں اٹھ کر ان کی طرف گیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! واقعی آپ ہی اس بات کو دریافت کرنے کے زیادہ حق دار تھے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:میں نے دریافت کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات کیونکر ہو گی؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: میں نے جو کلمۂ اسلام اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا، مگر اس نے اسے قبول نہیں کیا تھا، جو آدمی بھی میری طرف سے اس کلمہ کو قبول کر لے یعنی اس کا دلی طور پر اقرار کر لے تو یہی کلمہ( توحید) اس کی نجات کا ذریعہ ہو گا۔

۔ (۱۱۰۳۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ فَاطِمَۃَ بَکَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: یَا أَبَتَاہُ! مِنْ رَبِّہِ مَا أَدْنَاہُ، یَا أَبَتَاہُ! إِلٰی جِبْرِیلَ اَنْعَاہُ، یَا أَبَتَاہُ! جَنَّۃُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاہُ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۶۲)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات پر سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا روتے ہوئے یوں کہہ رہی تھی: اے میرے ابا جان! آپ اپنے رب کے کس قدر قریب پہنچ گئے، اے میرے ابا جان! میں جبریل کو آپ کی موت کی خبر دوں گی، اے میرے ابا جان! جنت الفردوس آپ کا ٹھکانا ہے۔

۔ (۱۱۰۳۹)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) أَنَّ أُمَّ أَیْمَنَ بَکَتْ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقِیلَ لَہَا: مَا یُبْکِیکِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: إِنِّی قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَیَمُوتُ، وَلٰکِنْ إِنَّمَا أَبْکِی عَلَی الْوَحْیِ الَّذِی رُفِعَ عَنَّا۔ (مسند احمد: ۱۳۲۴۷)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہوئی تو سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رونے لگیں، ان سے کہا گیا کہ آپ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پرکیوں گریہ کرتی ہیں؟ انھوں نے کہا: میں یہ تو جانتی ہی تھی کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا عنقریب انتقال ہو جائے گا، لیکن میں تو اس لیے رو رہی ہوں کہ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔

۔ (۱۱۰۴۰)۔ عَنْ یَحْیَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ اَبِیْہِ عَبَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَۃَ تَقُوْلُ: مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ سَحْرِیْ وَنَحْرِیْ وَفِیْ دَوْلَتِیْ لَمْ اَظْلِمْ فِیْہِ اَحَدًا، فَمِنْ سَفَہِیْ وَحَدَاثَۃِ سِنِّیْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُبِضَ وَھُوَ فِیْ حِجْرِیْ، ثُمَّ وَضَعْتُ رَاْسَہٗعَلٰی وِسَادَۃٍ، وَقُمْتُ اَلْتَدِمُ مَعَ النِّسَائِ وَاَضْرِبُ وَجْہِیْ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۸۰)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے،انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال میری گردن اور سینے کے درمیان میری ہی باری کے دن ہوا، میں نے اس دن کسی سے کچھ بھی زیادتی نہیں کی،یہ میری نا سمجھی اور نو عمری تھی کہ میری گود میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فوت ہوئے۔ پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک تکیہ پر رکھ دیا اور میں عورتوں کے ساتھ مل کر رونے لگی اور اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی۔

۔ (۱۱۰۴۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ دَخَلَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ وَفَاتِہِ فَوَضَعَ فَمَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ، وَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلَی صُدْغَیْہِ، وَقَالَ وَا نَبِیَّاہْ، وَا خَلِیلَاہْ، وَا صَفِیَّاہْ۔ (مسند احمد: ۲۴۵۳۰)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور اپنا منہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان اور اپنے ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کنپٹیوں پر رکھے اور کہا: ہائے میرے نبی ! ہائے میرے خلیل ! ہائے اللہ کے منتخب نبی۔

۔ (۱۱۰۴۲)۔ (وَعَنْہَا اَیْضًًا) أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ دَخَلَ عَلَیْہَا فَتَیَمَّمَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ مُسَجًّی بِبُرْدِ حِبَرَۃٍ فَکَشَفَ عَنْ وَجْہِہِ، ثُمَّ أَکَبَّ عَلَیْہِ فَقَبَّلَہُ وَبَکٰی، ثُمَّ قَالَ: بِأَبِی وَأُمِّی وَاللّٰہِ! لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْکَ مَوْتَتَیْنِ أَبَدًا، أَمَّا الْمَوْتَۃُ الَّتِی قَدْ کُتِبَتْ عَلَیْکَ فَقَدْ مِتَّہَا۔ (مسند احمد: ۲۵۳۷۵)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ (نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انتقال کے بعد) سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ہاں آئے اور سیدھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دھاری دارچادر ڈالی گئی تھی، انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرۂ انور سے کپڑا ہٹایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوپر جھک گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بوسہ دیا اور رونے لگے، پھر کہا: میرا باپ اور ماں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فدا ہوں، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دو موتیں کبھی بھی جمع نہیں کرے گا، پہلی موت جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے مقدر تھی وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر آچکی ہے۔

۔ (۱۱۰۴۳)۔ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ: کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یُحَدِّثُ: أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، وَعُمَرُ یُحَدِّثُ النَّاسَ، فَمَضٰی حَتّٰی أَتَی الْبَیْتَ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی بَیْتِ عَائِشَۃَ، فَکَشَفَ عَنْ وَجْہِہِ بُرْدَ حِبَرَۃٍ کَانَ مُسَجًّی بِہِ، فَنَظَرَ إِلٰی وَجْہِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ أَکَبَّ عَلَیْہِیُقَبِّلُہُ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ عَلَیْہِ مَوْتَتَیْنِ، لَقَدْ مِتَّ الْمَوْتَۃَ الَّتِی لَا تَمُوتُ بَعْدَہَا۔ (مسند احمد: ۳۰۹۰)

سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے تھے کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسجد میں داخل ہوئے، وہاں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں سے محوِ کلام تھے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگے چلتے گئے، یہاں تک کہ وہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر داخل ہو گئے، جہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو چکا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک دھاری دار چادر سے ڈھانپا گیا تھا، انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ اقدس سے کپڑا ہٹا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ کی طرف دیکھا اور بوسہ دینے کے لیے نیچے کو جھکے اور پھر کہا: اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دو موتوں کو جمع نہیں کرے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وہ موت طاری ہو چکی ہے، جس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر موت طاری نہیں ہو گی۔