سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دینے کے لیے لوگ جمع ہوئے، گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل خانہ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب، سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا فضل بن عباس، سیدنا قثم بن عباس، سیدنا اسامہ بن زید بن حار ثہ اجمعین اور ان کا غلام سیدنا صالح رضی اللہ عنہ تھے، یہ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دینے کے لیے جمع ہوئے تو دروازہ کے باہر سے بنو عوف بن خزرج کے ایک فرد سیدنا اوس بن خولی انصاری بدری رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو آواز دیتے ہوئے کہا: اے علی! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، ہمارا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حق اور حصہ ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اندر آجاؤ، سو وہ اندر آگئے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غسل کے موقع پر حاضر رہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دینے میں شریک نہیں ہو سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قمیض اسی طرح رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے سینے سے لگا لیا، سیدنا عباس، سیدنا فضل اور سیدنا قثم ، سیدنا علی بن ابی طالب کے ساتھ مل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو کو بدلتے اور سیدنا اسامہ بن زید اور ان کا غلام سیدنا صالح رضی اللہ عنہ پانی ڈالتے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیتے، عام طور پر فوت ہونے والوں کے جسم میں جو ناروا باتیں دیکھی جاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیتے جاتے اور کہتے: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی میں اور زندگی کے بعد بھی کس قدر پاکیزہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیری کے پتے ملے پانی سے غسل دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دینے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم کو خشک کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ سارے کام کئے گئے جو میت کے ساتھ کئے جاتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین کپڑوں میں داخل کیا گیا، ان میں سے دو سفید تھے اور ایک دھاری دار چادر تھی، اس کے بعد سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے دو آدمیوں کو بلوا کر ایک کو سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی طرف اور دوسرے کو سیدنا ابو طلحہ بن سھل رضی اللہ عنہ انصاری کو بلانے کے لیے بھیجا، سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ مکہ میں اہل مکہ کے لیے قبر کھودا کرتے تھے، یہ صندوقییعنی شق والی قبر بناتے تھے اور سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اہل مدینہ کے لیے بغلییعنی لحد والی قبر تیار کیا کرتے تھے، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو روانہ کرنے کے بعد کہا: اے اللہ ! ان دونوں میں سے تو جسے چاہے، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اختیار فرما، وہ دونو ں گئے، جو آدمی سیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بلانے گیا تھا، وہ اسے نہیں مل سکے، اور جو آدمی سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلانے گیا تھا، وہ اسے مل گئے، چنانچہ وہ ان کو ساتھ لے آئے اور انہوں نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے لحدوالی (بغلی قبر) تیار کی۔