سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں عصر کے بعد غروب آفتاب کے قریب تک خطبہ ارشاد فرمایا، ہم میں سے کسی نے اسے یاد رکھا اور کسی نے اسے بھلا دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خطبہ میں قیامت تک رونما ہونے والے اہم اہم امور کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دنیا سر سبز یعنی خوش نما، میٹھی اور دل پسند ہے، اللہ اس دنیا میں تمہیں ایک دوسرے کا خلیفہ بناتا ہے، یعنی ایک نسل جاتی ہے تو دوسری نسل اس کی جگہ آجاتی ہے، وہ دیکھتا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ خبردار! تم دنیا کو جمع کرنے سے اور عورتوں کے ساتھ زیادہ دل لگانے سے بچو۔ خبردار ! اولاد آدم کو مختلف طبقات میں پیدا کیا گیا ہے، ان میں سے بعض ایمان کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں، ایمان کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں اور ایما ن کی حالت ہی میں انہیں موت آتی ہے اور بعض کفر کی حالت میں پیدا ہوتے، کفر کی حالت میں زندگی گزارتے اور کفر پر ہی ان کو موت آتی ہے۔ اور ان میں سے بعض کفر کی حالت میں پیدا ہوتے، کفر پر زندگی گزارتے ہیں اور ان کو موت ایمان پر آتی ہے۔ اور ان میں سے بعض ایمان کی حالت میں پیدا ہوتے، ایمان پر زندگی گزارتے ہیں اور ان کو موت کفر پر آتی ہے۔ خبردار! غصہ ایک انگار اہے، جو انسان کے پیٹ میں جلتا ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ غصے کے وقت آدمی کی آنکھیں سرخ اور رگیں پھول جاتی ہیں، جب تم میں سے کسی پر ایسی کیفیت طاری ہو تو وہ زمین پر لیٹ جائے۔ خبردار! لوگوں میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جسے غصہ دیر سے آئے اور وہ جلد راضی ہو جائے اور بدترین آدمی وہ ہے جسے غصہ جلد آئے اور دیر سے ختم ہو اور جس آدمی کو دیر سے غصہ آئے اور دیر سے ختم ہو یا جسے جلد غصہ آئے اور جلد ختم ہو جائے تو یہ صفات ایک دوسری کے بالمقابل ہیںیعنی اچھی صفت بری صفت کی برائی کا ازالہ کر دیتی ہے۔ تاجروں میں سے اچھا وہ ہے ادائیگی اچھی طرح کرے اور اپنے حق کا مطالبہ بھی اچھی طرح کرے۔ اور بدترین تاجر وہ ہے جس کا ادائیگی کا انداز بھی بھونڈا اور اپنے حق کا مطالبہ بھی بھونڈے انداز سے کرے۔ اور جو کوئی ادائیگی اچھی کرے اور مطالبہ کا انداز غلط ہو یا ادائیگی کا انداز برا اور مطالبہ کا انداز اچھا ہو تو اچھی صفت بری صفت کی تلافی کر دیتی ہے۔ خبردار! ہر دھوکہ باز کے لیے قیامت کے دن بطورِ علامت ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، اس کا دھوکہ جس قدر ہو گا اس کا جھنڈا بھی اسی حساب سے بلند ہو گا سب سے بڑا دھوکا عام لوگوں کے حاکم کا ہوتا ہے۔ خبردار!جو کوئی حق بات کو جانتا ہو اسے لوگوں کا ڈر حق بات کے کہنے سے نہیں روکے۔ خبردار! یاد رکھو کہ ظالم حکم ران کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل جہاد ہے۔ اور جب سورج غروب ہونے کے قریب پہنچا تو فرمایا گزری ہوئی مدتِ دنیا اور باقی مدت دنیا کی مثال ایسے ہی ہے جیسے گزرے ہوئے دن کے مقابلہ میں دن کاباقی حصہ۔
۔(دوسری سند) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن ہمیں نماز عصر اول ترین وقت میں پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر غروب آفتاب تک ہم سے خطاب فرمایا، قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وہ سب کچھ بیان فرمایا، کسی کو یاد رہا اور کسینے بھلا دیا، اس سے آگے گزشتہ حدیث کی مانند ہے، البتہ اس میں ہے:قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کی دبر کے قریب اس کے دھوکہ کے لحاظ سے بلند جھنڈا نصب کیا جائے گا، اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم غصے والے آدمی کی آنکھوں کو سرخ ہوتے اور اس کی رگوں کو پھولتے نہیں دیکھتے، جب تم میں سے کسی کو شدید غصہ آئے تو وہ زمین پر بیٹھ جائے۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے سے بڑھ کر کوئی بات افضل نہیں، جب تم میں سے کوئی آدمی حق بات کہنے کا موقع دیکھےیا ایسی جگہ پر موجود ہو جہاں حق بات کہنے کی ضرورت ہو تو لوگوں کا ڈرتمہیں حق کہنے سے نہیں روکے۔ اس کے بعد سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ رو پڑے اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! لوگوں کے خوف نے ہمیں کلمۂ حق کہنے سے روکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ذریعے امتوں کا ستر کا عدد پورا ہو رہا ہے۔ یعنی تم ستر ویں امت ہو، تم سب سے افضل اور اللہ کے ہاں سب سے بڑھ کر معزز ہو۔ اس کے بعد سورج غروب ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی گزری ہوئی مدت اور باقی مدت میں وہی نسبت ہے، جو گزرے ہوئے دن کے مقابلہ میں غروب تک کے بقیہ وقت کو نسبت ہے۔