مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

قیامت، جنت اور جہنم کے تذکرہ پر مشتمل ایک خطبہ

۔ (۱۱۰۸۹)۔ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ حِینَ زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّی الظُّہْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَذَکَرَ السَّاعَۃَ، وَذَکَرَ أَنَّ بَیْنَیَدَیْہَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ عَنْ شَیْئٍ فَلْیَسْأَلْ عَنْہُ، فَوَاللّٰہِ لَا تَسْأَلُونِی عَنْ شَیْئٍ إِلَّا أَخْبَرْتُکُمْ بِہِ مَا دُمْتُ فِی مَقَامِیہٰذَا۔)) قَالَ أَنَسٌ: فَأَکْثَرَ النَّاسُ الْبُکَائَ حِینَ سَمِعُوا ذٰلِکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَکْثَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَقُولَ: ((سَلُونِی۔)) قَالَ أَنَسٌ: فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: أَیْنَ مَدْخَلِییَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: ((النَّارُ۔)) قَالَ: فَقَامَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُذَافَۃَ فَقَالَ: ((مَنْ أَبِییَا رَسُولَ اللّٰہِ؟)) قَالَ: ((أَبُوکَ حُذَافَۃُ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَکْثَرَ أَنْ یَقُولَ: ((سَلُونِی۔)) قَالَ: فَبَرَکَ عُمَرُ عَلَی رُکْبَتَیْہِ، فَقَالَ: ((رَضِینَا بِاللّٰہِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَسُولًا۔)) قَالَ: فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ قَالَ عُمَرُ ذٰلِکَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ آنِفًا فِی عُرْضِ ہٰذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّی فَلَمْ أَرَ کَالْیَوْمِ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ۔)) (مسند احمد: ۱۲۶۸۸)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن جب سورج ڈھل گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، نماز سے سلام پھیرا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیامت کا اور قیامت تک رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات کا ذکر کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کوئی کسی بھی چیز کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہو وہ پوچھ لے، اللہ کی قسم! میں جب تک اس1 جگہ پر ہوں تم جو بھی پوچھو گے، میں تمہیں اس کے بارے میں بتا دوں گا؟ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ لوگوں نے جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ باتیں سنیں تو سب لوگ بہت زیادہ رو دئیے، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی بار بار کہتے جاتے کہ مجھ سے پوچھو، مجھ سے پوچھو، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر دریافت کیا:اللہ کے رسول! آخرت میں میرا انجام کیا ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم۔ سیدنا عبداللہ بن حذافہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اُٹھے اور انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ! یہ محدود انداز میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بات کی تھی کہ میں جب تک اس جگہ پر موجود ہوں آپ کے سوالوں کے جوابات دوں گا۔ ظاہر ہے کہ آپ کو ایک خاص حد تک لوگوں کو آگاہ کرنے کا بتایا گیا۔ اس سے آپ کا عالم الغیب ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہیہ اللہ کی صفت ہے جس پر بہت سی قرآنی نصوص دلالت کرتی ہیں اور بہت سارے واقعات و احادیث سے آپ کے متعلق عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ (عبداللہ رفیق) میرا باپ کون ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حذافہ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی بار بار فرمایا: پوچھو، اور پوچھو۔ یہ کیفیت دیکھ کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے:ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ کہا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابھی میں نماز پڑھا رہا تھا تو اس دیوار کی طرف میرے سامنے جنت اور جہنم کو پیش کیا گیا، اچھا اور برا ہونے کے لحاظ سے میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا۔