سعد بن ہشام سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے ام المؤمنین! آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق سے آگاہ فرمائیں۔ انہوں نے کہا: قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق تھا، کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ}… بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق کی اعلیٰ قدروں پر فائز ہیں۔ (سورۂ قلم: ۴) میں نے عرض کیا:میں تبتّل کی زندگی اختیار کرنا چاہتا ہوں۔انھوں نے کہا: تم ایسا نہ کرو، کیا تم قرآن میں یہ نہیں پڑھتے: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} … (یقینا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اسوہ ٔ حسنہ ہے۔ (سورۂ احزاب:۲۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادیاں کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد بھی ہوئی۔
بنو سواء ۃ کے ایک فرد سے روایت ہے، وہ کہتا ہے: میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا، انہو ںنے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ}… بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق کی اعلیٰ قدروں پر فائز ہیں۔ (سورۂ قلم: ۴) وہ کہتاہے: میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس کی کچھ تفصیل بیان کریں، انہوں نے کہا:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک کھانا تیار کیا اور ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کھانا تیار کیا،میں نے اپنی خادمہ سے کہا کہ جائو اگر وہ کھانا لے کر آئے اور مجھ سے پہلے کھانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لا کر رکھے تو کھانا پھینک دینا۔ سیدہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ کھانا لے کر آئیں تو خادمہ نے کھانا پھینک دیا،پیالہ گرکر ٹوٹ گیا، ایک چمڑا بطور دستر خوان بچھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بکھرا ہوا کھانا دستر خوان سے جمع کیا اور فرمایا: تم اس کے عوض دوسرا برتن ادا کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید کچھ نہیں فرمایا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لاتے اور ہمارے ساتھ گھل مل جاتے، میرا ایک چھوٹا بھائی تھا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرلیا کرتے تھے اور اسے ہنسایا کرتے تھے، اس نے ایک بلبل پال رکھا تھا اور وہ اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، وہ مر گیا، ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو اسے غمگین دیکھاا ور فرمایا: ابو عمیر کو کیا ہوا، یہ غمگین کیوں ہے؟ گھر والوں نے بتلایا کہ اے اللہ کے رسول! یہ جس بلبل کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، وہ مر گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابو عمیر! بلبل نے کیا کیا؟
۔(دوسری سند) ابو تیاح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑھ کر اچھے اخلاق کے مالک تھے، میرا ایک بھائی تھا، جسے ابوعمیر کہاجاتا تھا، ابو تیاح کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بتلایا کہ ابھی اس کا دودھ چھڑایا گیا تھا، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لاتے اور اسے دیکھ کر فرماتے: اے ابو عمیر! بلبل کہاں ہے؟ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ بلبل ایک پرندہ تھا، جس کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر ہی ہوتے اور نماز کا وقت ہو جاتا تو جو چٹائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نیچے ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کے متعلق حکم فرماتے کہ اسی کو صاف کرکے اس پر پانی کے چھینٹے مار دیئے جائیں، پھر اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرتے، وہ چٹائی کھجور کے پتوں کی ہوتی ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موٹے حاشیہ والی ایک نجرانی چادر زیب تن کیے ہوئے تھے، ایک بدو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چادر سے پکڑ کر اتنے زور سے کھینچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن پر چادر کے نشانات نمایاں نظر آنے لگے۔ اس بدو نے کہا: اے محمد! اللہ کا جو مال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہے، مجھے بھی اس میں سے عطا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دیئے اور اسے کچھ عطیہ دینے کا حکم صادر فرمایا۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چلے جا رہے تھے، یہ حنین سے واپسی کا واقعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ کچھ دوسرے لوگ بھی تھے، اسی دوران دیہاتی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آ چمٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مال مانگنے لگے اور آپ کو زور سے (کیکریا ببول کے) ایک خاردار درخت کی طرف کھینچے لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر اتر گئی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک گئے اور فرمایا: میری چادر تو مجھے دے دو، اگر ان کانٹوں کے برابر بھی جانور ہوتے تو میں ان کو تقسیم کر دیتا پھر تم مجھے بخیل، جھوٹا یا بزدل نہیں پائو گے۔
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے بچوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملایا جاتا، ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر سے واپس تشریف لائے اور مجھے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لے جایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سواری پر اپنے آگے بٹھا لیا، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ میں سے کسی ایک کو لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے پیچھے بیٹھا لیا، پھر ہم اس طرح تین آدمی ایک سواری پر سوار ہو کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔
عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا تمہیںیاد ہے کہ جب میں، آپ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، ہم تینوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جا کر ملے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں یا د ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سواری پر اپنے ساتھ سوار کر لیا تھا اور تمہیں رہنے دیاتھا۔امام احمد کے شیخ اسمعیل بن علیہ نے ایک دفعہ یوں روایت کیا: کیا تمہیںیاد ہے جب میں، آپ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ آگے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے تھے؟ انہوں نے کہاں! جی ہاں یاد ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اپنے ساتھ سوار کر لیا تھا اور تمہیں چھوڑ دیا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عادۃًیا تکلفاً فحش گو نہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے اچھا وہ ہے، جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس برس تک خدمت کی۔ (ایک روایت میں نو سال کا ذکر ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جو حکم بھی دیا اور پھر مجھ سے اس بارے میں کوتاہی ہو گئییا نقصان ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ملامت نہیں کی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں سے کسی نے بھی مجھے برابھلا کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: اسے چھوڑ دو،اگر ایسا ہونا مقدر میں ہے تو وہ ہو کر رہے گا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گالیاں دینے والے، لعنت کرنے والے اور فحش گو نہیں تھے، جب کسی کو ڈانٹنا ہوتا تو صرف اتنا کہتے کہ اسے کیا ہو گیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: او دو کانوں والے۔
سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں جب سے مسلمان ہوا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پاس آنے سے مجھے کبھی نہیں روکا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب بھی مجھے دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا دیئے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کسی مسلمان کا نام لے کر اس پر لعنت نہیں کی، نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھ کی گئی بدسلوکی کا انتقام لیا، الایہ کی اللہ تعالیٰ کی حدود پامال ہوتی ہوں،نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو اپنے ہاتھ سے مارا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ کا مسئلہ ہو، آپ سے جب بھی کوئی چیز طلب کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی اس کا انکار نہیں کیا، الایہ کی وہ بات گناہ والی ہوتی، اگر گناہ والی بات ہوتی تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے اور جب بھی آپ کو دوباتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے اس صورت کا انتخاب کرتے، جو ان میں سے آسان تر ہوتی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور کرکے فارغ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑی ہوئی ہو اسے بھی زیادہ سخی ہوتے۔