مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سخاوت کا بیان

۔ (۱۱۲۲۱)۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ: أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِبُرْدَۃٍ مَنْسُوجَۃٍ فِیہَا حَاشِیَتَاہَا، قَالَ سَہْلٌ: وَہَلْ تَدْرُونَ مَا الْبُرْدَۃُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ ہِیَ الشَّمْلَۃُ، قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ نَسَجْتُ ہٰذِہِ بِیَدِی فَجِئْتُ بِہَا لِأَکْسُوَکَہَا، فَأَخَذَہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُحْتَاجًا إِلَیْہَا فَخَرَجَ عَلَیْنَا وَإِنَّہَا لَإِزَارُہُ، فَجَسَّہَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ رَجُلٌ سَمَّاہُ فَقَالَ: مَا أَحْسَنَ ہٰذِہِ الْبُرْدَۃَ! اکْسُنِیہَایَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَلَمَّا دَخَلَ طَوَاہَا وَأَرْسَلَ بِہَا إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہُ الْقَوْمُ: وَاللّٰہِ مَا أَحْسَنْتَ کُسِیَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُحْتَاجًا إِلَیْہَا، ثُمَّ سَأَلْتَہُ إِیَّاہَا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّہُ لَا یَرُدُّ سَائِلًا، فَقَالَ: وَاللّٰہِ! إِنِّی مَا سَأَلْتُہُ لِأَلْبَسَہَا وَلٰکِنْ سَأَلْتُہُ إِیَّاہَا لِتَکُونَ کَفَنِییَوْمَ أَمُوتُ، قَالَ سَہْلٌ: فَکَانَتْ کَفَنَہُ یَوْمَ مَاتَ۔ (مسند احمد: ۲۳۲۱۳)

سیدنا سہل بن سعد ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بُنی ہوئی ایک حاشیہ دار چادر لے کر حاضر ہو ئی۔ پھر سیدنا سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ آیا تم جانتے ہو کہ بردۃ کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، چادر کو کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا: جی ٹھیک ہے،اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے ہاتھ سے یہ چادر بن کر حاضر ہوئی ہوں تاکہ آپ کے پہننے کے لیے اسے آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے پسند کرتے ہوئے قبول فرمایا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے زیب تن کیا اور ہمارے پاس تشریف لائے، سیدنا سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک آدمی کا نام لے کر بیان کیا کہ اس نے اس چادر کو ہاتھ لگا کر دیکھا اور کہا: یہ کتنی عمدہ چادر ہے، اے اللہ کے رسول! آپ یہ مجھے دے دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر تشریف لے گئے اور اس چادر کو لپیٹ کر اس کی طرف بھجوا دیا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے یہ اچھا کام نہیں کیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ چادر پہننے کے لیے دی گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ پسند بھی آئی تھی، لیکن تم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ مانگ لی، جبکہ تم جانتے ہو کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی سائل کو خالی واپس نہیں لوٹاتے۔اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے آپ سے یہ چادر پہننے کے لیے نہیں مانگی، میں نے تو صرف اس لیے مانگی ہے کہ جب میں مروں گا تو یہ چادر میرا کفن ہو گی۔ سیدنا سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب وہ فوت ہوا تو وہ چادر اس کا کفن بنائی گئی۔

۔ (۱۱۲۲۲)۔ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ الرَّجُلَ کَانَ جَعَلَ لَہُ، قَالَ عَفَّانُ: یَجْعَلُ لَہُ مِنْ مَالِہِ النَّخَلَاتِ أَوْ کَمَا شَائَ اللّٰہُ حَتّٰی فُتِحَتْ عَلَیْہِ قُرَیْظَۃُ وَالنَّضِیرُ، قَالَ: فَجَعَلَ یَرُدُّ بَعْدَ ذٰلِکَ، وَإِنَّ أَہْلِی أَمَرُونِی أَنْ آتِیَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَسْأَلَہُ الَّذِی کَانَ أَہْلُہُ أَعْطَوْہُ أَوْ بَعْضَہُ، وَکَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ أَعْطَاہُ أُمَّ أَیْمَنَ أَوْ کَمَا شَائَ اللَّہُ، قَالَ: فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَعْطَانِیہِنَّ، فَجَاء َتْ أُمُّ أَیْمَنَ فَجَعَلَتِ الثَّوْبَ فِی عُنُقِی وَجَعَلَتْ تَقُولُ: کَلَّا وَاللّٰہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ لَا یُعْطِیکَہُنَّ وَقَدْ أَعْطَانِیہِنَّ، أَوْ کَمَا قَالَ: فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَکِ کَذَا وَکَذَا۔)) وَتَقُولُ: کَلَّا وَاللّٰہِ! قَالَ: وَیَقُولُ: ((لَکِ کَذَا وَکَذَا)) قَالَ: حَتّٰی أَعْطَاہَا فَحَسِبْتُ أَنَّہُ قَالَ: ((عَشْرَ أَمْثَالِہَا۔)) أَوْ قَالَ: ((قَرِیبًا مِنْ عَشْرَۃِ أَمْثَالِہَا)) أَوْ کَمَا قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۳۳۲۴)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ کوئی آدمی اپنے باغات میں سے حسب توفیق کھجوروں کے کچھ درخت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے مخصوص کر دیا کرتا تھا یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نصیر پر فتح پا لی گئی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کو ان کی طرف سے دی گئی کھجوریں لوٹانے لگے، میرے گھر والوں نے بھی مجھ سے کہا کہ انہوں نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھجوریں دی ہوئی ہیں، وہ سب یا ان میں سے کچھ واپس مانگوں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ کھجوریں ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو یا کسی دوسرے کو دے چکے تھے، میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کھجوروں کا مطالبہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے وہ کھجوریں دے دیں۔ سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا میرے پاس آئیں اور انہوں نے میری گردن میں کپڑا ڈال دیا اور بولیں: ہر گز نہیں، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اللہ کے نبی وہ کھجوریں مجھے دے چکے ہیں، اب وہ تمہیں نہ دیں گے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں آپ کو اس کے عوض اتنی اتنی کھجوریں دے دیتا ہوں۔ وہ کہنے لگیں: اللہ کی قسم! ہر گز نہیں، آپ فرماتے رہے کہ میں تمہیں مزید اتنی کھجوریں دیتا ہوں۔ یہاں تک کہ آپ نے ان کو وہ دے دیں، معتمر کے والد سلیمان بن طرخان کا بیان ہے کہ میں نے شمار کیا تو سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اصل تعداد سے دس گنا زائد یا اس کے قریب قریب فرمایا ۔

۔ (۱۱۲۲۳)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: مَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا قَطُّ فَقَالَ: لَا۔ (مسند احمد: ۱۴۳۴۵)

سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کبھی کوئی چیز طلب کی گئی ہو اور آپ نے جواباً نہیں فرمایا ہو۔

۔ (۱۱۲۲۴)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی لَیْلٰی، عَنِ الْمِقْدَادِ قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِی قَدْ ذَہَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجَہْدِ، قَالَ: فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلٰی أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْسَ أَحَدٌ یَقْبَلُنَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَانْطَلَقَ بِنَا إِلٰی أَہْلِہِ فَإِذَا ثَلَاثُ أَعْنُزٍ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ اَرْبَعُ اَعْنُزٍ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((احْتَلِبُوا ہٰذَا اللَّبَنَ بَیْنَنَا)) قَالَ: فَکُنَّا نَحْتَلِبُ فَیَشْرَبُ کُلُّ إِنْسَانٍ نَصِیبَہُ، وَنَرْفَعُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَصِیبَہُ، فَیَجِیئُ مِنَ اللَّیْلِ فَیُسَلِّمُ تَسْلِیمًا لَا یُوقِظُ نَائِمًا وَیُسْمِعُ الْیَقْظَانَ، ثُمَّ یَأْتِی الْمَسْجِدَ فَیُصَلِّی، ثُمَّ یَأْتِی شَرَابَہُ فَیَشْرَبُہُ، قَالَ: فَأَتَانِی الشَّیْطَانُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَقَالَ: مُحَمَّدٌ یَأْتِی الْأَنْصَارَ فَیُتْحِفُونَہُ وَیُصِیبُ عِنْدَہُمْ مَا بِہِ حَاجَۃٌ إِلٰی ہٰذِہِ الْجُرْعَۃِ فَاشْرَبْہَا، قَالَ: مَا زَالَ یُزَیِّنُ لِی حَتّٰی شَرِبْتُہَا، فَلَمَّا وَغَلَتْ فِی بَطْنِی وَعَرَفَ أَنَّہُ لَیْسَ إِلَیْہَا سَبِیلٌ، قَالَ: نَدَّمَنِی، فَقَالَ: وَیْحَکَ مَا صَنَعْتَ شَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ فَیَجِیئُ وَلَا یَرَاہُ فَیَدْعُو عَلَیْکَ فَتَہْلِکَ فَتَذْہَبُ دُنْیَاکَ وَآخِرَتُکَ، قَالَ: وَعَلَیَّ شَمْلَۃٌ مِنْ صُوفٍ کُلَّمَا رَفَعْتُہَا عَلٰی رَأْسِی خَرَجَتْ قَدَمَایَ وَإِذَا أَرْسَلْتُ عَلٰی قَدَمَیَّ خَرَجَ رَأْسِی وَجَعَلَ لَایَجِیئُ لِی نَوْمٌ، قَالَ: وَأَمَّا صَاحِبَایَ فَنَامَا، فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَلَّمَ کَمَا کَانَ یُسَلِّمُ، ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ فَصَلّٰی فَأَتٰی شَرَابَہُ فَکَشَفَ عَنْہُ فَلَمْ یَجِدْ فِیہِ شَیْئًا فَرَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ، قَالَ: قُلْتُ: الْآنَ یَدْعُو عَلَیَّ فَأَہْلِکُ، فَقَالَ: ((اَللّّٰہُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِی وَاسْقِ مَنْ سَقَانِی)) قَالَ: فَعَمَدْتُ إِلَی الشَّمْلَۃِ فَشَدَدْتُہَا عَلیَّ فَأَخَذْتُ الشَّفْرَۃَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی الْأَعْنُزِ أَجُسُّہُنَّ أَیُّہُنَّ أَسْمَنُ فَأَذْبَحُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُنَّ حُفَّلٌ کُلُّہُنَّ فَعَمَدْتُ إِلٰی إِنَائٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ، مَا کَانُوا یَطْمَعُونَ أَنْ یَحْلِبُوا فِیہِ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّۃً أُخْرٰی: أَنْ یَحْتَلِبُوا فِیہِ، فَحَلَبْتُ فِیہِ حَتّٰی عَلَتْہُ الرَّغْوَۃُ، ثُمَّ جِئْتُ بِہِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَمَا شَرِبْتُمْ شَرَابَکُمُ اللَّیْلَۃَیَا مِقْدَادُ؟)) قَالَ: قُلْتُ اشْرَبْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِی، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِی، فَأَخَذْتُ مَا بَقِیَ فَشَرِبْتُ، فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ رَوِیَ فَأَصَابَتْنِی دَعْوَتُہُ ضَحِکْتُ حَتّٰی أُلْقِیتُ إِلَی الْأَرْضِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِحْدٰی سَوْآتِکَ یَا مِقْدَادُ! قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ کَانَ مِنْ أَمْرِی کَذَا صَنَعْتُ کَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا کَانَتْ ہٰذِہِ إِلَّا رَحْمَۃً مِنَ اللّٰہِ، أَلَا کُنْتَ آذَنْتَنِی نُوقِظُ صَاحِبَیْکَ ہٰذَیْنِ فَیُصِیبَانِ مِنْہَا؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أُبَالِی إِذَا أَصَبْتَہَا وَأَصَبْتُہَا مَعَکَ مَنْ أَصَابَہَا مِنَ النَّاسِ،(وَفِیْ لَفْظٍ: إِذَا أَصَابَتْنِی وَإِیَّاکَ الْبَرَکَۃُ فَمَا أُبَالِی مَنْ أَخْطَأَتْ)۔ (مسند احمد: ۲۴۳۱۳)

سیدنا مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور میرے دو ساتھی اس حال میں آئے کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے ہمارے کان اور آنکھیں کام کرنے سے جواب دے چکے تھے (ایک روایت میں ہے کہ ہم شدید بھوک سے دو چار تھے) ہم اپنے آپ کو صحابہ کرام کے سامنے پیش کرنے لگے (تاکہ کوئی ہمیں اپنامہمان بنالے) لیکن کوئی بھی ہمیں بطورِ مہمان لے جانے کے لیے تیار نہ ہوا، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں چلے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے، وہاں تین (اور ایک راویت کے مطابق چار) بکریاں موجود تھیں۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان بکریوں کا دودھ دوہ کر ہمارے درمیان تقسیم کرو۔ پس ہم دودھ دوہتے اور ہر آدمی اپنا حصہ نوش کر لیتا اور ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حصہ بچا رکھتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کو کسی وقت تشریف لاتے تو اس قدر آواز سے سلام کہتے کہ کسی سوئے ہوئے کو بیدار نہ کرتے اور جاگتا آدمی سن لیتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی نماز والی جگہ پر تشریف لاتے، نماز ادا فرماتے، پھر آپ دودھ والی جگہ جا کر دودھ نوش فرماتے۔ سیدنا مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات شیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈالا کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو انصارکے ساتھ جاتے ہیں، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تحائف پیش کرتے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں سے کچھ نہ کچھ کھا پی آتے ہیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان چند گھونٹوں کی چنداں حاجت نہیں ہوتی۔میں یہ پی لوں تو اس سے کیا ہو گا؟ وہ بار بار مجھے یہ خیال دلاتا اور اس بات کو میرے لیے خوش نما کرتا رہا، حتی کہ میں وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ میرے پیٹ میں پہنچ گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب اس کے نکلنے کی کوئی بھی صورت نہیں تو شیطان مجھے چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ اور کہہ گیا کہ تجھ پر افسوس ہے۔ یہ تو نے کیا کیا؟ تم محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حصے کا دودھ پی گئے، وہ آکر دودھ نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا کریں گے اور تم ہلاک ہو جائو گے، تمہاری تو دنیا بھی تباہ اور آخرت بھی برباد ہو جائے گی، میرے اوپر ایک چھوٹی سی ادنی چادر تھی، میں اسے سر پر ڈالتااتو پائوں ننگے ہو جاتے اور اگر پائوں پر ڈالتا تو سر چادر سے باہر نکل آتا،بس میں اسی کشمکش میں رہا اور مجھے نیند نہ آئی، میرے دونوں ساتھی آرام سے سوئے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور حسب معمول سلام کہا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کی جگہ پر نماز ادا کی۔ اس کے بعد آپ دودھ کے پاس گئے۔ ڈھکنا اٹھایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے برتن میں کچھ نہ پایا۔ آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا، میں نے سوچا کہ اب آپ مجھ پر بد دعا کریں گے اور میں تباہ و برباد ہو جائوں گا۔ مگر آپ نے فرمایا: اَللّّٰہُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِی وَاسْقِ مَنْ سَقَانِی (یا اللہ! جس نے مجھے کھانا کھلایا تو اسے کھانا عطا فرما اور جس نے مجھے کچھ پلایاتو اسے پلا)۔ سیدنا مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے چادر کھینچ کر اپنے اوپر کس لی اور چھری سنبھالی اور میں بکریوں کو ٹٹولنے لگا کہ دیکھوں ان میں سے کونسی بکری زیادہ موٹی تازی ہے کہ تاکہ اسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ذبح کروں۔ میں نے دیکھا تو ان سب کے تھن دودھ سے لبریز تھے، میں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خانوادہ کے ایک ایسے برتن کا قصد کیا، جس میں دودھ دوھنے کی انہیں امید نہ تھی۔1 میں نے اس میں دودھ دوہایہاں تک کہ اس پر جھاگ آگئی، پھر میں وہ دودھ لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: مقداد! کیا آج رات آپ لوگوں نے دودھ نوش نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نوش فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دودھ پیا ! یعنی اتنا زیادہ دودھ نہیں ہوتا تھا کہ ان کو امید ہو کہ اس برتن میں بھی دودھ ڈالنے کی ضرورت محسوس ہو گی گویا وہ دودھ والا برتن زائد پڑا رہتا تھا۔ (عبداللہ رفیق) اور پھر مجھے عنایت فرمایا۔ میں نے پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مزید پئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نوش فرما کر برتن مجھے تھما دیا، اس کے بعد جو بچاوہ میں نے پیا، جب مجھے یقین ہوا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خوب سیر ہو چکے ہیں اور میں آپ کی دعا کا حق دار بن چکا ہوں۔ میں اس قدر ہنسا کہ ہنستے ہنستے زمین پر لیٹ گیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مقداد! یہ تمہاری ایک نا مناسب حرکت ہے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ساتھ تو آج یہ معاملہ پیش آیا اور میں یہ کام کر بیٹھا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ کی رحمت تھی (اور دوسری روایت کے لفظ ہیں: یہ آسمان سے نازل شدہ برکت تھی) تم نے پہلے مجھے کیوں نہ بتلایا، ہم تمہارے ان دونوں ساتھیوں کو بھی بیدار کر لیتے اور وہ بھی اس سے فیضیاب ہو جاتے۔ مقداد کہتے ہیں:میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے!جب آپ اور آپ کا ساتھ میںاس برکت کو حاصل کر چکا ہوں تو اب مجھے اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کہ کسی اور کو ملی ہے یا نہیں۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ جب آپ کو اور مجھے یہ برکت نصیب ہو چکی ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کون اس سے محروم رہا۔

۔ (۱۱۲۲۵)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ عَنْہٗأَیْضًا) عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: قَدِمْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِی عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِیدٌ، فَتَعَرَّضْنَا لِلنَّاسِ فَلَمْ یُضِفْنَا أَحَدٌ، فَانْطَلَقَ بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی مَنْزِلِہِ، وَعِنْدَہُ أَرْبَعُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ: ((لِییَا مِقْدَادُ جَزِّئْ أَلْبَانَہَا بَیْنَنَا أَرْبَاعًا۔))، فَکُنْتُ أُجَزِّئُہُ بَیْنَنَا أَرْبَاعًا فَاحْتَبَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَحَدَّثْتُ نَفْسِی أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ أَتٰی بَعْضَ الْأَنْصَارِ، فَأَکَلَ حَتّٰی شَبِعَ وَشَرِبَ حَتّٰی رَوِیَ، فَلَوْ شَرِبْتُ نَصِیْبَہٗ، فَذَکَرَ نَحْوَ الْحَدِیْثِالْمُتَقَدِّمِ۔ (مسند احمد: ۲۴۳۱۱)

۔(دوسری سند) سیدنا مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور میرے ساتھ دو دوست، ہم سب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں پہنچے، ہمیں شدید بھوک لگی ہوئی تھی، ہم لوگوں کے سامنے گئے مگر کسی نے ہماری مہمانی نہ کی، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چار بکریاں تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: مقداد! تم ان بکریوں کا دودھ ہمارے درمیان چار حصوں میں تقسیم کرو۔ پس میں اس دودھ کو ان چاروں کے درمیان تقسیم کرتا تھا۔ ایک رات اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہیں مصروف ہوگئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی انصاری کے گھر تشریف لے گئے ہوں گے، آپ نے ان کے ہاں سیر ہو کر کھا پی لیا ہوگا، اگر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حصے کا دودھ پی لوں تو کچھ نہیں ہوگا۔ اس سے آگے گزشتہ حدیث کی مانندہی ہے۔

۔ (۱۱۲۲۶)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلْنَا الْمَدِینَۃَ عَشَّرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشَرَۃً عَشَرَۃًیَعْنِی فِی کُلِّ بَیْتٍ، قَالَ: فَکُنْتُ فِی الْعَشَرَۃِ الَّتِی کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِمْ، قَالَ: وَلَمْ یَکُنْ لَنَا إِلَّا شَاۃٌ نَتَحَرّٰی لَبَنَہَا، قَالَ: فَکُنَّا إِذَا أَبْطَأَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَرِبْنَا وَبَقَّیْنَا لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَصِیبَہُ، فَلَمَّا کَانَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ أَبْطَأَ عَلَیْنَا، فَذَکَرَ نَحْوَہٗوَفِیْہِ: قَالَ(یَعْنِی الْمِقْدَادَ): وَثَبْتُ وَأَخَذْتُ السِّکِّینَ وَقُمْتُ إِلَی الشَّاۃِ قَالَ (یَعْنِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ): ((مَا لَکَ؟)) قُلْتُ: أَذْبَحُ؟ قَالَ: ((لَا ائْتِنِی بِالشَّاۃِ)) فَأَتَیْتُہُ بِہَا فَمَسَحَ ضَرْعَہَا فَخَرَجَ شَیْئًا ثُمَّ شَرِبَ وَنَامَ۔ (مسند احمد: ۲۴۳۱۹)

۔(تیسری سند) سیدنا مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب ہم مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم میں سے دس دس آدمیوں کو ایک ایک گھرانے کا مہمان بنا دیا، میں ان دس آدمیوں کے گروہ میں تھا، جس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی تھے، ہمارے پاس صرف ایک بکری تھی، ہم اسی کے دودھ کے منتظر رہتے تھے، اگر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیر ہو جاتی تو ہم دودھ پی لیتے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ان کا حصہ رکھ دیتے۔ ایک رات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا فی دیر تک تشریف نہ لائے۔ (اس کے بعد حدیث، گزشتہ حدیث کی مانند ہے، البتہ اس طریق میں ہے:) سیدنا مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے چھری لی اور بکری کی طرف چلا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: میں اسے ذبح کرتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اسے ذبح نہ کرو، اسے میرے پاس لائو۔ میں اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے تھنوں کو ہاتھ لگایا، پھر اس سے کچھ دودھ نکالا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ دودھ پی کر سو گئے۔

۔ (۱۱۲۲۷)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِیطِ بْنِ صَبِرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ وَافِدِ بَنِی الْمُنْتَفِقِ قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِی، حَتَّی انْتَہَیْنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ نَجِدْہُ فَأَطْعَمَتْنَا عَائِشَۃُ تَمْرًا وَعَصَدَتْ لَنَا عَصِیدَۃً، إِذْ جَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَقَلَّعُ، فَقَالَ: ((ہَلْ أُطْعِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ؟)) قُلْنَا: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَبَیْنَا نَحْنُ کَذٰلِکَ دَفَعَ رَاعِی الْغَنَمِ فِی الْمُرَاحِ عَلٰییَدِہِ سَخْلَۃٌ، قَالَ: ((ہَلْ وَلَدَتْ۔)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَاذْبَحْ لَنَا شَاۃً۔)) ثُمَّ أَقْبِلْ عَلَیْنَا فَقَالَ: ((لَا تَحْسَبَنَّ وَلَمْ یَقُلْ لَا یَحْسَبَنَّ إِنَّا ذَبَحْنَا الشَّاۃَ مِنْ أَجْلِکُمَا، لَنَا غَنَمٌ مِائَۃٌ لَا نُرِیدُ أَنْ تَزِیدَ عَلَیْہَا فَإِذَا وَلَّدَ الرَّاعِی بَہْمَۃً أَمَرْنَاہُ بِذَبْحِ شَاۃٍ۔)) فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَخْبِرْنِی عَنِ الْوُضُوئِ؟ قَالَ: ((إِذَا تَوَضَّأْتَ فَأَسْبِغْ وَخَلِّلِ الْأَصَابِعَ وَإِذَا اسْتَنْثَرْتَ فَأَبْلِغْ إِلَّا أَنْ تَکُونَ صَائِمًا)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، إِنَّ لِی امْرَأَۃً فَذَکَرَ مِنْ طُولِ لِسَانِہَا وَإِیذَائِہَا، فَقَالَ: ((طَلِّقْہَا)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، إِنَّہَا ذَاتُ صُحْبَۃٍ وَوَلَدٍ، قَالَ: ((فَأَمْسِکْہَا وَأْمُرْہَا فَإِنْ یَکُ فِیہَا خَیْرٌ فَسَتَفْعَلْ، وَلَا تَضْرِبْ ظَعِینَتَکَ ضَرْبَکَ أَمَتَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۶۴۹۷)

سیدنا لقیط بن صبرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو کہ بنومنتفق کے وفد میں شامل تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں اور میرا ایک دوست اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئے، لیکن ہماری آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات نہ ہو سکی۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ہمیں کھجوریں کھلائیں اور آٹے اور گھی کا حلوہ بھی پیش کیا، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی جواں مردوں کی طرح چلتے تشریف لے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آتے ہی دریافت فرمایا کہ کیاآپ لوگوں نے کچھ کھایا پیا بھی ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جی ہاں ہم وہیں بیٹھے تھے کہ بکریوں کا چرواہا باڑے میں اپنے ہاتھ پر بکری کا بچہ لیے کھڑا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا بکری نے بچہ جنم دیا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تو اب تم ہمارے لیے ایک بکری ذبح کرو، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہم آپ کی خاطر بکری ذبح کر رہے ہیں، ہمارے پاس ایک سو بکریاں ہیں، ہم اس سے زیادہ نہیں چاہتے، جب بھی بکریوں میں سے کوئی بکری بچہ جنتی ہے تو ہم اس چرواہے کو ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دے دیتے ہیں۔ سیدنا صبرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں وضوء کے مسائل سے آگاہ فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو تمام اعضاء کو اچھی طرح دھوئو، انگلیوں کا خلال کیا کرو اور جب ناک میں پانی چڑھائو تو خوب مبالغہ کیا کرو، الایہ کو تم روزے کی حالت میں ہو (یعنی روزے کی حالت میں وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانے میں زیادہ مبالغہ نہ کرو)۔ انہوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! میری ایکبیوی بڑی بدزبان ہے اور مجھے ایذاء پہنچاتی رہتی ہے۔ (میں کیا کروں؟) وہ ایک عرصہ سے میرے ساتھ رہ رہی ہے اور بچوں کی ماں بھی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اسے قابو رکھو اور اسے سمجھاتے رہو، اگر اس میں کچھ خیر ہوئی تو سمجھ جائے گی اور اگر اسے مارنا پڑ جائے تو اس طرح نہ مارنا جیسے لونڈیوں کو مارتے ہیں ۔

۔ (۱۱۲۲۸)۔ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ قَالَ: أَعْطَانِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَوْمَ حُنَیْنٍ، وَإِنَّہٗلَأَبْغَضُالنَّاسِإِلَیَّ، فَمَا زَالَ یُعْطِِنِیْ حَتّٰی صَارَ وَإِنَّہٗأَحَبُّالنَّاسِإِلَیَّ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۷۸)

سیدنا صفوان بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ مجھے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بہت زیادہ بغض تھا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے دن مجھے اس قدر دیا اور عنایت فرماتے گئے یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو گئے۔

۔ (۱۱۲۲۹)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، یَقُولُ: کُنْتُ فِی ظِلِّ دَارِی فَمَرَّ بِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا رَأَیْتُہُ وَثَبْتُ إِلَیْہِ فَجَعَلْتُ أَمْشِی خَلْفَہُ، فَقَالَ: ((ادْنُ فَدَنَوْتُ مِنْہُ)) فَأَخَذَ بِیَدِی فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتٰی بَعْضَ حُجَرِ نِسَائِہِ أُمِّ سَلَمَۃَ أَوْ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَدَخَلَ ثُمَّ أَذِنَ لِی فَدَخَلْتُ وَعَلَیْہَا الْحِجَابُ، فَقَالَ: ((أَعِنْدَکُمْ غَدَائٌ؟)) فَقَالُوْا: نَعَمْ، فَأُتِیَ بِثَلَاثَۃِ أَقْرِصَۃٍ فَوُضِعَتْ عَلٰی نَقِیٍّ، فَقَالَ: ((ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ أُدُمٍ؟)) فَقَالُوْا: لَا إِلَّا شَیْئٌ مِنْ خَلٍّ، قَالَ: ((ہَاتُوہُ۔)) فَأَتَوْہُ بِہِ فَأَخَذَ قُرْصًا فَوَضَعَہُ بَیْنَیَدَیْہِ، وَقُرْصًا بَیْنَیَدَیَّ، وَکَسَرَ الثَّالِثَ بِاثْنَیْنِ، فَوَضَعَ نِصْفًا بَیْنَیَدَیْہِ وَنِصْفًا بَیْنَیَدَیَّ۔ (مسند احمد: ۱۵۱۲۴)

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنے گھر کے سائے میں بیٹھا تھا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو میں لپک کر آپ کی طرف گیا اور آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب آجائو۔ پس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ تھام لیا،یہاں تک کہ آپ اپنی بیوی سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا یا سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے حجرہ کے پاس تشریف لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر چلے گئے اور پھر مجھے بھی اندر آنے کی اجازت دے دی۔ میں اندر گیا تو وہ پردہ میں تھیں ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیوی سے پوچھا: کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے تین روٹیاں پیش کی گئیں اور ان کو دستر خوان پر رکھ دیا گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کوئی سالن ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ سر کے کے علاوہ تو کچھ نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی لے آئو۔ پس انہوں نے وہی پیش کر دیا ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک روٹی اپنے سامنے اور ایک میرے سامنے رکھی اور تیسری کے دو ٹکڑے کرکے ایک اپنے اور ایک میرے سامنے رکھ دیا۔

۔ (۱۱۲۳۰)۔ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ: أَنَّ أَبَا أُسَیْدٍ کَانَ یَقُولُ: أَصَبْتُ یَوْمَ بَدْرٍ سَیْفَ ابْنِ عَابِدٍ الْمَرْزُبَانِ، فَلَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَرُدُّوْا مَا فِی أَیْدِیہِمْ، أَقْبَلْتُ بِہِ حَتّٰی أَلْقَیْتُہُ فِی النَّفْلِ، قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یَمْنَعُ شَیْئًایُسْأَلُہُ، قَالَ: فَعَرَفَہُ الْأَرْقَمُ بْنُ أَبِی الْأَرْقَمِ الْمَخْزُومِیُّ، فَسَأَلَہُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَعْطَاہُ إِیَّاہُ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۵۳)

سیدنا ابو اسید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن ابن عابد مر زبان کی تلوار مجھے ملی، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم فرمایا کہ مجاہدین کے پاس جو جو چیز ہے وہ واپس کر دیں،تو میں وہ تلوار لے آیا اور اسے مال غنیمت میں ڈالادیا۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت تھی کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی چیز طلب کی جاتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انکار نہ فرماتے تھے۔سیدنا ارقم بن ابی ارقم مخزومی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس تلوار کو پہچان لیااور اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے وہ مانگ لی اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ اسی کو عطا فرما دی۔

۔ (۱۱۲۳۱)۔ عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْأَلُہُ فَأَعْطَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَنَمًا بَیْنَ جَبَلَیْنِ، فَأَتَی الرَّجُلُ قَوْمَہُ فَقَالَ: أَیْ قَوْمِی أَسْلِمُوا، فَوَاللّٰہِ! إِنَّ مُحَمَّدًا لَیُعْطِی عَطِیَّۃَ رَجُلٍ مَا یَخَافُ الْفَاقَۃَ، أَوْ قَالَ: الْفَقْرَ، قَالَ: وَحَدَّثَنَاہُ ثَابِتٌ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: إِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَأْتِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُسْلِمُ مَا یُرِیدُ إِلَّا أَنْ یُصِیبَ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا، أَوْ قَالَ: دُنْیَایُصِیبُہَا فَمَا یُمْسِی مِنْ یَوْمِہِ ذٰلِکَ حَتّٰییَکُونَ دِینُہُ أَحَبَّ إِلَیْہِ، أَوْ قَالَ أَکْبَرَ عَلَیْہِ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔ (مسند احمد: ۱۲۸۲۱)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں کچھ مانگنے کے لیے آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دوپہاڑوں کے درمیان وادی میں جتنی بکریاں تھیں، وہ سب اس کو دے دیں، اس نے اپنی قوم سے جا کر کہا: اے میری قوم! اسلام قبول کر لو، اللہ کی قسم! محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو اس قدر عطا فرماتے ہیں کہ وہ فقر و فاقہ کی بھی پروا نہیں کرتے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ کوئی آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں مسلمان ہونے آتا اور اس کا مقصد حصول دنیا ہی ہوتا، شام ہونے سے پہلے پہلے دین اس کی نظر میں دنیا بھر کی دولت سے بھی بڑھ کر عزیز تر اور محبوب تر ہو جاتا۔