سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:جب مسجد کھجور کے تنوں اور شاخوں سے بنی ہوئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے ایک تنے کے پاس نماز ادا کیا کرتے تھے اور اسی کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لیے ایک ایسی چیز تیار کردیں جس کے اوپر کھڑے ہو کرآپ جمعہ کے دن خطبہ دیا کریں ،تاکہ سب لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ اپنا خطاب (آسانی سے) سب لوگوں کو سنا سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تین سیڑھیوں والا منبر بنا دیا گیا، جب منبر تیار ہوگیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی جگہ پر رکھوا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جانے کے لیے اس تنے کے پاس سے گزرے تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، یہاں تک کہ وہ پھٹ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف واپس پلٹے، اپنا ہاتھ مبارک اس پر پھیرا،یہاں تک کہ وہ پر سکون ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کی طرف گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی نماز پڑھتے تو اسی تنے کے قریب پڑھا کرتے تھے۔ جب مسجد کو گرا کراس کی عمارت تبدیل کی گئی ،تب اس تنے کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ لے گئے، وہ انہی کے پاس رہا یہاں تک کہ وہ بو سیدہ ہو گیا، اسے دیمک کھا گئی اور وہ ریزہ ریزہیعنی بھر بھرا ہوگیا۔
۔(دوسری سند) اس میں یہ ہے کہ صحابہ نے آپ کے لیے تین سیڑھیوں والا منبر تیار کیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسب معمول خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو وہ تنا آپ سے جدائی پر رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: خاموش ہو جا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: یہ تنا میری جدائی پر رویا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: خاموش ہو جا، اگر تو چاہتاہے تو میں تجھے جنت میں لگا دوں تاکہ صالحین تیرا پھل کھائیں اور اگر تو چاہے تو تجھے پہلے کی طرح تروتازہ کردوں۔ پس اس نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو وہ تنا سیدنا ابیبن کعب رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ انہی کے پاس رہا یہاں تک کہ اسے دیمک چاٹ گئی۔
سیدناجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیتے وقت مسجد کے ستونوں میں سے کھجور کے ایک تنے کا سہارا لیا کرتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے منبر تیار کر دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے تو وہ ستون (تنا) اونٹنی کی طرح بے چین ہو کر رونے لگا۔ یہاں تک کہ اس کی آواز مسجد میں موجود سب لوگوں نے سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر سے نیچے اتر کر اس تنے کو اپنے سینے سے لگایا تو وہ خاموش ہو گیا۔
۔(دوسری سند) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، ایک انصاری خاتون ،جس کا غلام بڑھئی تھا، نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عر ض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا ایک غلام بڑھئی ہے، کیا میں اس سے کہہ کر آپ کے خطبہ دینے کے لیے ایک منبر تیار کروا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی کیوں نہیں۔ ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب جمعہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پرکھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرما نے لگے، تو وہ تنا جس کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوا کرتے تھے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے قریب جو اللہ کا ذکر کیا جاتا تھا،اس سعادت سے محرومی پر یہ رویا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ منبر تیار ہونے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ستون کے قریب کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، منبر تیارہونے پر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادھر منتقل ہو گئے تو وہ تنا رونے لگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے قریب آکر اسے اپنے سینے سے لگایا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اسے سینے سے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا ۔