سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو مصطلق کے قیدیوں کو صحابہ میں تقسیم کیا تو جویریہ بنت حارث، سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ یا ان کے چچا زاد کے حصہ میں آئیں۔ سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا نے فوراً ان سے مکاتبت کر لی (کہ وہ اتنے عرصے میں اتنی رقم دے کر آزاد ہو جائے گی)، یہ کافی دل کش خاتون تھیں، جو کوئی انہیں دیکھتا، بس وہ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئیں تا کہ اپنی مکاتبت کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعاون حاصل کر سکیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب میں نے ان کو اپنے کمرہ کے دروازے پر دیکھا تو غیرت کے مارے وہ مجھے اچھی نہ لگیں، میں جانتی تھی کہ ان کے متعلق میں جو کچھ دیکھ رہی ہوں، آپ بھی ضرور وہی محسوس کریں گے (کہ یہ کافی خوبصورت ہے اور اس سے شادی کر لینی چاہیے)۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گئیں اور کہا: میں اپنی قوم کے سردار حارث بن ابی ضرارکی دختر ہوں، مجھ پر جو آزمائش آئی ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں۔ اب میںثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ یا ان کے چچا زاد کے حصے میں آ گئی ہوں، میں نے اپنی آزادی کا ان سے ایک معاہدہ کیا ہے، میں اس سلسلہ میں آپ سے تعاون حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ انہوںنے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ یہ کہ تمہارے معاہدہ کی ساری رقم میں ادا کردوں اور تمہارے ساتھ نکاح کر لوں۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ٹھیک ہے، میں راضی ہوں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب لوگوں میں یہ خبر پھیلی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جویریہ بنت حارث سے نکاح کر لیا ہے۔ تو لوگوں نے کہا کہ یہ قیدی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرال ہوئے۔ تو انہوںنے اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جویریہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کے نتیجہ میں بنو مصطلق کے سو گھروں کے لوگ آزاد ہوگئے، میں کسی ایسی عورت کو نہیں جانتی جو ان سے بڑھ کر اپنی قوم کے لیے با برکت ثابت ہوئی ۔