سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن میں سواری پر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے بیٹھا تھا اور میر اقدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم کو لگ رہا تھا، ہم وہاں پہنچے تو آفتاب طلوع ہو چکا تھا، وہ لوگ اپنے جانوروں کو ہانک کر باہر نکلے اور اپنی کلہاڑیاں، ٹوکریاں اور رسیاںلے کر روانہ ہوئے یعنی وہ لوگ بالکل بے خبر تھے اور عام معمول کے مطابق اپنے اپنے کام کو روانہ ہوئے۔ اچانک ہی وہ حیران ہو کر کہنے لگے یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کا لشکر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر، اب خیبر کی خیر نہیں، ہم جب کسی قوم کے علاقے میں جا اتریں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے ان یہود کو شکست سے دو چار کیا اور ایک خوبصورت لونڈی دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات غلام دے کر ان سے اسے خرید لیا اور اسے ام سلیم رضی اللہ عنہا کے سپرد کیا تاکہ وہ اس کو تیار کرے۔ یہ حیی کی دختر صفیہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ولیمہ میں کھجور، پنیر اور گھی پیش کیا۔ زمین میں چھوٹے چھوٹے گڑھے بنا کر ان پر دستر خوان بچھا دیئے گئے پھر پنیر کھجور اور گھی ان پر ڈال دیا گیا۔ لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ آپ نے اس سے نکاح کیا ہے یا ام ولد (لونڈی) کی حیثیت دی ہے؟ پھر لوگوں نے کہا : اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو پردہ کرایا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی ہیں اور اگر پردہ نہ کرایا تو وہ لونڈی ہیں، جب آپ نے سوار ہونے کا یعنی روانگی کا ارادہ کیا تو ان کو پردہ کرایایہاں تک کہ وہ اونٹ کی پشت پر سوار ہوگئیں۔ لوگ جان گئے کہ آپ نے ان سے نکاح کرکے ان کو بیوی کی حیثیت دی ہے۔ جب لوگ مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیز چلے اور ہم بھی تیز تیز چلنے لگے۔ تیز چلنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عضباء اونٹنی کا پائوں الجھ گیا اور وہ گر گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بھی گر گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اٹھ کر ان پر پردہ کر دیا، سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:عورتوں نے آکر کہا: اللہ اس یہودی عورت کو ہلاک کرے۔ (کہ اس کی وجہ سے آپ گر گئے ہیں) میں نے یعنی ثابت نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے ابو حمزہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گر گئے تھے؟ انہوں نے کہاں: ہاں ہاں، اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گر گئے تھے اور میں ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں شریک ہوا تھا، آپ نے لوگوںکو گوشت روٹی کھلا کر خوب سیر کیاتھا، آپ مجھے بھیجتے تھے اور میں لوگوں کو بلا کر لاتا تھا،آپ جب کھانا کھلانے سے فارغ ہوئے تو اٹھ کر چل دیئے، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ دو آدمی باتیں کرتے کرتے بیٹھے رہے اور وہ پیچھے رہ گئے اور وہ اٹھ کر نہ گئے۔ آپ اپنی ازواج کے ہاں چکر لگانے لگے اور ہر ایک کو ان الفاظ کے ساتھ سلام کہتے: سَلَامٌ عَلَیْکُمْیَا أَہْلَ الْبَیْتِ اے اہل بیت! تم پر سلامتی ہو۔ تمہار کیا حال ہے؟ وہ کہتیں: اے اللہ کے رسول! ہم ٹھیک ہیں اور آپ نے اپنے اہل کو کیسا پایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی فرماتے تھے: خیر کے ساتھ پایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس آگیا۔ آپ ابھی تک دروازے پر پہنچے تو آپ نے ان دونوں آدمیوں کو دیکھا، وہ ابھی تک سلسلہ کلام جاری رکھے ہوئے تھے، انہوںنے جب دیکھا کہ آپ جا کر واپس آگئے ہیں تو وہ اٹھ کر چلے گئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! مجھے یاد نہیں کہ آپ کو میں نے بتلایایا آپ پر وحی نازل ہوئی کہ وہ دونوں جا چکے ہیں۔ آپ واپس آئے۔اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آگیا۔ آپ نے جب اپنا پائوں د روازے کی چوکھت پر رکھا تو اپنے اور میرے درمیان آپ نے پردہ لٹکا دیا۔ اور اللہ نے حجاب کے متعلق یہ آیات نازل کر دیں: {لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ} … تم نبی کے گھروں میں بلا اجازت مت جائو، الایہ کہ تمہیں کھانے کے لیے بلایا جائے تو ایسے وقت جائو کہ تمہیں کھانے کے پکنے کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ (سورۂ احزاب: ۵۳)
۔(دوسری سند) سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے اسی طرح ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی اپنی سوار یوں کو دوڑانا شروع کر دیا، وہ اسی طرح کرتے جا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی گر گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھ ہی ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بھی گر گئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقی ازواج یہ منظر دیکھ رہی تھیں، وہ بولیں: اللہ اس یہودن کو ہلاک کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اٹھ کر ان پر پردہ کر دیا اور ان کو دوبارہ اپنے پیچھے سوار کر لیا۔
۔(تیسری سند) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مال غینمت کی تقسیم میں سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ، سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ اس سے آگے گزشتہ حدیث کی مانند ہی ہے۔ البتہ اس طریق میںیوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھایا ، پھر نیچے اتر کر ان کے اوپر قبہ بنایا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر سے واپس ہوئے تو سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی پھسلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا گر گئے۔ سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہا تیزی سے لپک کر آگے بڑھے اور کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، اس جملہ کے بارے میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اس جملے کے متعلق شک ہے کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تھا یا نہیں کہا تھا، پھر انھوں نے کہا: آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اس عورت یعنی سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی خبر لو۔ پس سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ لیا اور ان کی طرف جا کر اپنا کپڑا ان کے اوپر پھیلا دیا، پھر ان کے پالان کو درست کیا، پھر ہم سوار ہو کر چل دیئے۔ اس کے بعد ہم دونوں آپ کے دائیں بائیںہوگئے۔ جب ہم مدینہ منورہ کے قریبیا حرہ کے قریب پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا پڑھنا شروع کر دی: آیِبُونَ عَابِدُونَ تَائِبُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔ (ہم واپس آنے والے، اللہ کی عبادت کرنے والے، توبہ کرنے والے اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔) آپ ان الفاط کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ صفیہ بنت حیی کو آزاد کیا او ر ان کی آزادی کوہی ان کا حق مہر مقرر کر دیا۔