مسنداحمد

Musnad Ahmad

خلافت و امارت کے مسائل

فصل سوم: سیدنا صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعض خطبوں کا بیان اسلام میں ان کے پہلے خطاب کا بیان

۔ (۱۲۱۷۸)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ قَالَ: إِنِّی لَجَالِسٌ عِنْدَ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَلِیفَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشَہْرٍ، فَذَکَرَ قِصَّۃً فَنُودِیَ فِی النَّاسِ أَنَّ الصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ، وَہِیَ أَوَّلُ صَلَاۃٍ فِی الْمُسْلِمِینَ نُودِیَ بِہَا إِنَّ الصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ شَیْئًا صُنِعَ لَہُ کَانَ یَخْطُبُ عَلَیْہِ، وَہِیَ أَوَّلُ خُطْبَۃٍ خَطَبَہَا فِی الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! وَلَوَدِدْتُ أَنَّ ہٰذَا کَفَانِیہِ غَیْرِی، وَلَئِنْ أَخَذْتُمُونِی بِسُنَّۃِ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أُطِیقُہَا، إِنْ کَانَ لَمَعْصُومًا مِنَ الشَّیْطَانِ، وَإِنْ کَانَ لَیَنْزِلُ عَلَیْہِ الْوَحْیُ مِنَ السَّمَائِ۔ (مسند احمد: ۸۰)

قیس بن ابی حازم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے ایک مہینہ بعد خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں انہیں کوئی بات یا د آئی اور انھوں نے لوگوں میں یہ اعلان کرایا کہ اَلصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ ،مسلمانوں میں یہ پہلی نماز تھی، جس کے لیے اس الصَّلَاۃَ جَامِعَۃٌ کے الفاظ کے ساتھ اعلان کیا گیا، لوگ اکٹھے ہوئے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ منبر پر تشریف لے آئے، اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور کہا: لوگو! میں چاہتا ہو ں کہ اس بارِ خلافت کو کوئی اور آدمی سنبھال لے اور میں نے ا س سے سبکدوش ہو جاؤں، اگر تم اپنے نبی کی سنت کے مطابق میرا مؤاخذہ کرنے لگو تو میں اس کی تاب نہ لاسکوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر تو آسمان سے وحی نازل ہوتی تھی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شیطانی اثر سے معصوم و محفوظ تھے۔

۔ (۱۲۱۷۹)۔ (وَعَنْہٗاَیْضًا) عَنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَنَّہُ خَطَبَ فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّکُمْ تَقْرَئُ وْنَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ، وَتَضَعُونَہَا عَلٰی غَیْرِ مَا وَضَعَہَا اللّٰہُ: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ} سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنْکَرَ بَیْنَہُمْ فَلَمْ یُنْکِرُوہُیُوشِکُ أَنْ یَعُمَّہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابِہٖ))۔ (مسند احمد: ۵۳)

قیس بن ابی حازم سے یہ بھی روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے تو ہو مگر تم اس آیت کو اس کے غیر محل پر چسپاں کر رہے ہو، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر اپنی جانوں کا بچاؤ لازم ہے، تمھیں وہ شخص نقصان نہیں پہنچائے گا جو گمراہ ہے، جب تم ہدایت پا چکے۔ میں نے خود اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لو گ جب کسی برائی کو اپنے درمیا ن دیکھ کر اس پر انکار نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں پر عذاب نازل کر دے گا۔

۔ (۱۲۱۸۰)۔ عَنْ أَوْسَطَ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَنَۃٍ، فَأَلْفَیْتُ أَبَا بَکْرٍ یَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْأَوَّلِ فَخَنَقَتْہُ الْعَبْرَۃُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! سَلُوا اللّٰہَ الْمُعَافَاۃَ، فَإِنَّہُ لَمْ یُؤْتَ أَحَدٌ مِثْلَ یَقِینٍ بَعْدَ مُعَافَاۃٍ، وَلَا أَشَدَّ مِنْ رِیبَۃٍ بَعْدَ کُفْرٍ، وَعَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّہُ یَہْدِی إِلَی الْبِرِّ، وَہُمَا فِی الْجَنَّۃِ، وَإِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ، فَإِنَّہُ یَہْدِی إِلَی الْفُجُورِ، وَہُمَا فِی النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۴۴)

اوسط بن عمرو سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے ایک سال بعد میں مدینہ منورہ آیا، میںنے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے، انہوںنے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گزشتہ سال ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، یہ کہہ کر ان کی آواز آنسوؤں کی وجہ سے بند ہو گئی، تین بار ایسے ہی ہوا، بالآخر کہا:لوگو! اللہ سے عافیت کا سوال کرو، عافیت کے بعد ایمان و ایقان جیسی کوئی نعمت نہیں، جو بندے کو دی گئی ہو، اور نہ کفر کے بعد شک و شبہ سے بڑھ کر کوئی سخت گناہ ہے، تم صدق اور سچائی کو لازم پکڑو، یہ انسان کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے، اور صدق اور نیکی کا انجام جنت ہے اور تم جھوٹ سے بچ کر رہو، یہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور جھوٹ اور گناہ کا انجام جہنم ہے۔ُُ

۔ (۱۲۱۸۱)۔ (عَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: خَطَبَنَا اَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَقَامِیْ ہٰذَا عَامَ الْاَوَّلِ، وَبَکٰی اَبُوْ بَکْرٍ فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ: سَلُوا اللّٰہَ الْمُعَافَاہَ اَوْ قَالَ: الْعَافِیَۃَ، فَذَکَرَ نَحْوَ الْحَدِیْثِالْمُتَقَدِّمِ وَزَادَ: ((وَلَا تَحَاسَدُوْا، وَلَا تَبَاغَضُوْا، وَلَا تَقَاطَعُوْا، وَلَا تَدَابَرُوْا، وَکُوْنُوْا اِخْوَانًا کَمَا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔)) (مسند احمد: ۵)

۔ (دوسری سند) اوسط بن عمر و کہتے ہیں: سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہم سے خطاب کیا اور کہا: گزشتہ سال اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میری اسی جگہ پر کھڑے ہوئے، یہ کہہ کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رو پڑے، پھر انھوں نے کہا: تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرو، پھر سابق حدیث کی طرح ذکر کیا اور مزید کہا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، آپس میں قطع رحمی نہ کرو، باہمی قطع تعلقی اور دشمنی اختیار نہ کرو اور تم بھائی بھائی بن کر رہو، جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔