سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا: میںجنت میں داخل ہوا اور میں نے وہاں سونے سے بنا ہوا ایک محل دیکھا، میں نے دریافت کیا کہ یہ محل کس کا ہے، انہو ں نے کہا یہ ایک قریشی نوجوان کا ہے، میں نے سمجھا کہ شاید اس سے مراد میں ہوں، انہو ں نے بتلایا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میںجنت میں چلا جارہا تھا کہ مجھے ایک محل دکھائی دیا، میں نے کہا اے جبریل! یہ کس کا ہے؟ جبکہ مجھے امید تھی کہ یہ میرا ہوگا، انھوں نے کہا: یہ عمر کا ہے، پھر میں مزید کچھ دیر چلا تو پہلے سے زیادہ خوبصورت محل نظر آیا، میں نے کہا: جبریل! یہ کس کا ہے؟ جبکہ مجھے توقع تھی کہ وہ میرا ہوگا، انہو ںنے بتلایا کہ یہ عمر رضی اللہ عنہ کا ہے اور اس میں فراخ چشم حوریں بھی ہیں، اے عمر! اگر تمہاری غیرت مانع نہ ہوتی تو میں اس کے اندر چلا جاتا۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور انہو ںے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ پر تو غیرت نہیں کھاسکتا۔
سیدنا ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کے وقت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بلاایا اور ان سے فرمایا: اے بلال! تم کس عمل کی بنا پر جنت میں مجھ سے سبقت لے جا رہے تھے؟ میں جب بھی جنت میں گیا، وہاںمیں نے تمہارے پاؤں کی آہٹ اپنے سامنے سنی ہے۔ گزشتہ رات میں جنت میں گیا تو میں نے تمہاری وہی آواز سنی، پھر میں سونے سے بنے ہوئے ایک بلند وبالا محل کے پاس پہنچا۔ میں نے دریافت کیاکہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ ایک عربی شخص کا ہے، میں نے کہا: عربی تو میں بھی ہوں، یہ محل ہے کس کا؟ انہو ںنے بتلایا کہ یہ امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ایک آدمی کا ہے، میں نے کہا: میں ہی محمد ہوں، مجھے بتلاؤ کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہو ں نے کہا: یہ عمر بن خطاب کا ہے۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! اگر تمہاری غیرت کالحاظ نہ ہوتا تو میں محل کے اندر چلا جاتا۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ پر غیرت نہیں کر سکتا۔ سیدنا ابو برزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم کس عمل کی بنا پر جنت میں مجھ سے سبقت لیے جا رہے تھے؟ انہوں نے کہا: میںجب بھی بے وضو ہوتا ہوں تو وضو کرتا ہوں اور دو رکعت (تحیۃ الوضو پڑھتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسی عمل کی وجہ سے ہے۔
سیدناجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدناجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، ایک خاتون ایک محل کے پاس وضو کر رہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے۔ عمر! (میں نے اس کے اندر جانا چاہا لیکن) مجھے تمہاری غیرت یاد آ گئی، پس میں واپس پلٹ آیا۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات ارشاد فرما رہے تھے تو اس وقت سیدنا عمر رحمتہ اللہ علیہ بھی لوگوںکے ساتھ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہو ںنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات سنی تو رونے لگ گئے اور کہا: اللہ کے رسول! میرا والد آپ پر قربان جائے، کیا میں آپ پر غیرت کھا سکتا ہوں؟
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یقینا جنتی ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیداری کی حالت میں یا خواب کی حالت میں میں جو کچھ دیکھا، وہ برحق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں جنت میں تھا، میں نے ایک محل دیکھا اور پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے، بتلایا گیا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے۔
سیدنا مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! عمر رضی اللہ عنہ جنتی ہیں، مجھے یہ بات پسند نہیں کہ مجھے انتہائی قیمتی سرخ اونٹ مل جائیں اور تم اٹھ کر چلے جاؤ قبل اس کے کہ میں تمہیں پوری بات بتلاؤں کہ میں نے یہ بات کیوں کہی ہے، ا س کے بعد انہو ں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب بیان کیا اور پھر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب حق ہے۔