مسنداحمد

Musnad Ahmad

خلافت و امارت کے مسائل

فصل سوم: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے علم کی وسعت، قوتِ دین، ان کی نیکی اورزہد کا بیان

۔ (۱۲۱۹۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ، أُتِیتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْہُ، ثُمَّ أَعْطَیْتُ فَضْلِی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔)) قَالُوْا: فَمَا أَوَّلْتَہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((الْعِلْمُ۔)) (مسند احمد: ۵۸۶۸)

سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، میں نے اس میں سے نوش کیا اور پھر بچا ہوا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دے دیا۔ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علم۔

۔ (۱۲۱۹۹)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَیْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَیْتُ أَنِّی أَنْزِعُ عَلٰی حَوْضِی، أَسْقِی النَّاسَ، فَأَتَانِی أَبُو بَکْرٍ، فَأَخَذَ الدَّلْوَ مِنْ یَدِی، لِیُرَفِّہَ حَتّٰی نَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَیْنِ، وَفِی نَزْعِہِ ضَعْفٌ، قَالَ: فَأَتَانِی ابْنُ الْخَطَّابِ، وَاللّٰہُ یَغْفِرُ لَہُ، فَأَخَذَہَا مِنِّی فَلَمْ یَنْزِعْ رَجُلٌ حَتّٰی تَوَلَّی النَّاسُ، وَالْحَوْضُ یَتَفَجَّرُ۔)) (مسند احمد: ۸۲۲۲)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میں نے دیکھا کہ میں اپنے حوض پر کھڑا پانی کھینچ کھینچ کر لوگوں کو پلا رہا ہوں، اتنے میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس آئے، انہوں نے مجھے راحت دلانے کے لیے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا، انہو ں نے ایک دو ڈول کھینچے، ان کے اس عمل میں کچھ کمزوری تھی، اس کے بعدابن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے ڈول لے لیا، اللہ ان کی مغفرت فرمائے،وہ تو مسلسل کھینچتے رہے، یہاں تک کہ سب لوگ سیراب ہو کر واپس چلے گئے، اور حوض جو ش مارہا تھا۔

۔ (۱۲۲۰۰)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((رَأَیْتُ فِیمَایَرَی النَّائِمُ، کَأَنِّی أَنْزِعُ أَرْضًا، وَرَدَتْ عَلَیَّ غَنَمٌ سُودٌ، وَغَنَمٌ عُفْرٌ، فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ، فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَیْنِ، وَفِیہِمَا ضَعْفٌ، وَاللّٰہُ یَغْفِرُ لَہُ، ثُمَّ جَائَ عُمَرُ، فَنَزَعَ فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا، فَمَلَأَ الْحَوْضَ، وَأَرْوَی الْوَارِدَۃَ، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِیًّا أَحْسَنَ نَزْعًا مِنْ عُمَرَ، فَأَوَّلْتُ أَنَّ السُّودَ الْعَرَبُ، وَأَنَّ الْعُفْرَ الْعَجَمُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۲۱۱)

سیدنا ابوطفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جیسے سونے والا خواب دیکھتا ہے، اسی طرح میں نے دیکھا کہ گویا میں پانی کے ڈول کھینچ کھینچ کر زمین کو سیراب کر رہاہوں، میرے پاس کچھ سیاہ اور کچھ مٹیالے رنگ کی بکریاں آئیں، اتنے میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے، انہوں نے ایک دو ڈول تو کھینچے، لیکن اس کے کھینچنے میں کمزوری تھی، اللہ انہیں معاف کرے، اس کے بعد عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے اور انہوں نے ڈول کھینچنا شروع کیے، وہ ڈول بہت بڑا ڈول بن گیا، انہوں نے پانی کھینچ کھینچ کر حوض کو بھر دیا اور آنے والوں کو خوب سیر کردیا، میں نے کسی جوان کو عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بہتر انداز میں ڈول کھینچتے ہوئے نہیں دیکھا، پھر میں نے اس خواب کی تعبیر یوں کی کہ سیاہ بکریوں سے عرب لوگ اور مٹیالے رنگ والی بکریوں سے مراد عجمی لوگ ہیں۔

۔ (۱۲۲۰۱)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّیَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُ النَّاسَ یُعْرَضُونَ، وَعَلَیْہِمْ قُمُصٌ، مِنْہَا مَا یَبْلُغُ الثَّدْیَ، وَمِنْہَا مَا یَبْلُغُ دُونَ ذٰلِکَ، وَمَرَّ عَلَیَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَیْہِ قَمِیصٌیَجُرُّہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا أَوَّلْتَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((الدِّینُ))۔ (مسند احمد: ۱۱۸۳۶)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں لوگوں کو دیکھا، وہ میرے سامنے آرہے تھے، انہو ںنے قمیصیں پہن رکھی ہیں، کسی کی قمیص اس کی چھاتی تک ہے اور کسی کی اس سے نیچے تک، جب عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے سامنے سے گزرے تو وہ قمیص (لمبی ہونے کی وجہ سے) زمین پر گھسیٹ رہے تھے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دین۔

۔ (۱۲۲۰۲)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُ النَّاسَ یُعْرَضُونَ عَلَیَّ، وَعَلَیْہِمْ قُمُصٌ، مِنْہَا مَا یَبْلُغُ الثَّدْیَ، وَفِیہَا مَا یَبْلُغُ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِکَ، فَعُرِضَ عَلَیَّ عُمَرُ، وَعَلَیْہِ قَمِیصٌیَجُرُّہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا أَوَّلْتَ ذَاکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((الدِّینُ۔))(مسند احمد: ۲۳۵۵۹)

سہل بن حنیف کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میں نے لوگوں کو دیکھا، وہ مجھ پر پیش کیے جانے لگے، جبکہ انھوں نے قمیضیں پہنی ہوئی تھیں، کسی کی قمیض چھاتی تک پہنچ رہی تھی اور کسی کی اس سے نیچے تک، اتنے میں عمر کو مجھ پر پیش کیا گیا، (ان کی قمیض تو اس قدر لمبی تھی) کہ وہ اسی کو گھسیٹ رہے تھے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دین۔

۔ (۱۲۲۰۲)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُ النَّاسَ یُعْرَضُونَ عَلَیَّ، وَعَلَیْہِمْ قُمُصٌ، مِنْہَا مَا یَبْلُغُ الثَّدْیَ، وَفِیہَا مَا یَبْلُغُ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِکَ، فَعُرِضَ عَلَیَّ عُمَرُ، وَعَلَیْہِ قَمِیصٌیَجُرُّہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا أَوَّلْتَ ذَاکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((الدِّینُ۔))(مسند احمد: ۲۳۵۵۹)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ سے فرمایا: تم میں سے کس نے آج کسی جنازہ میں شرکت کی ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں نے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کس نے آج کسی بیمارکی تیمارداری کی ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں نے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج کسی نے روزہ رکھا ہوا ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں نے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت واجب ہوگئی ہے، واقعی واجب ہوگئی ہے۔

۔ (۱۲۲۰۴)۔ عَنْ أَبِی سِنَانٍ الدُّؤَلِیِّ أَنَّہُ دَخَلَ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَعِنْدَہُ نَفَرٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَی سَفَطٍ أُتِیَ بِہِ مِنْ قَلْعَۃٍ مِنَ الْعِرَاقِ، فَکَانَ فِیہِخَاتَمٌ، فَأَخَذَہُ بَعْضُ بَنِیہِ، فَأَدْخَلَہُ فِی فِیہِ فَانْتَزَعَہُ عُمَرُ مِنْہُ، ثُمَّ بَکٰی عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ لَہُ مَنْ عِنْدَہُ: لِمَ تَبْکِی؟ وَقَدْ فَتَحَ اللّٰہُ لَکَ وَأَظْہَرَکَ عَلٰی عَدُوِّکَ وَأَقَرَّ عَیْنَکَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا تُفْتَحُ الدُّنْیَا عَلٰی أَحَدٍ إِلَّا أَلْقَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَأَنَا أُشْفِقُ مِنْ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۹۳)

ابوسنان دؤلی سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے، جبکہ ان کے پاس اولین مہاجرین کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، انہو ں نے پیغام بھیج کر خوشبو کی ڈبیہ منگوائی، جو عراق کے ایک قلعہ سے منگوائی گئی تھی، اس میں ایک انگوٹھی تھی، ان کے ایک بیٹے نے اسے لا کر اپنے منہ میں ڈال لیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے منہ سے نکلو ادی، اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگے، وہاں پر موجود لوگوں میں سے کسی نے ان سے کہا: آپ کیوں روتے ہیں، جبکہ اللہ نے آپ کو فتح سے نوازا اور آپ کو دشمن پر غلبہ دے کر آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا ہے؟ سیدنا عمر نے کہا:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ جس بندے پر دنیا فراخ کر دیتا ہے تو وہ ان لوگوں کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور بغض ڈال دیتا ہے۔ اور مجھے اس بات کا اندیشہ ہے۔