حارث بن معاویہ کندی سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں تین باتیں دریافت کرنے کے لیے سوار ہو کر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف گیا، جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تم کیوں آئے ہو؟ میں نے بتلایا کہ آپ سے تین امور کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا: وہ کون سے امور ہیں؟ میں نے کہا: بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں اور میری اہلیہ کسی تنگ مکان میں ہوتے ہیں، اتنے میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے، لیکن اگر میں نماز پڑھوں تو وہ میرے سامنے آ جاتی ہے اور اگر وہ میرے پیچھے نماز ادا کرے تو مکان سے باہر نکل جاتی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اپنے اور ا س کے درمیان کپڑا لٹکا لیا کرو، پھر وہ تمہارے سامنے نماز پڑھتی رہے، اگر چاہے تو۔ پھر میں نے ان سے عصر کے بعد دورکعتیں ادا کرنے کے بارے میں پوچھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان دورکعتوں سے منع فرمایا تھا، پھر میں نے کہا: تیسری بات یہ ہے کہ میں آپ سے وعظ و تقریر کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں، لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان کے سامنے وعظ و تقریر کیا کروں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جو تم چاہتے ہو، کر لو۔ بس یوں لگا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اس کام سے روکنے کو ناپسند کیا۔ اس آدمی نے کہا: میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ تم ان کے سامنے وعظ و تقریر کرو گے اور تم دلی طو رپر اپنے آپ کو دوسروں سے اعلی اور برتر سمجھنے لگو، تم پھر وعظ و تقریر کرو گے اور تم اپنے آپ کو ان کے مقابلہ میں یوں سمجھنے لگو گے کہ گویا تم ثریا ستارے کی طرح اعلی و افضل ہو، لیکن تم اپنے آپ کو ان سے جس قدر برتر سمجھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی قدر تمہیں ان کے قدموں کے نیچے ڈالے گا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے جو چاہا، اپنے نبی کو رخصتیں دیں اور نبی کریم دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، لہٰذا تم حج و عمرہ کو اللہ تعالیٰ کے لیے اس طرح پورا کرو، جیسا کہ اس نے تمہیں حکم دیا ہے، نیز تم اپنی بیویوں کی شرم گاہوں کو پاکدامن رکھو۔
بجالہ کہتے ہیں: میں جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، وہ احنف بن قیس کے چچا تھے، ہمارے پاس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خط آیا، یہ ان کی وفات سے ایک سال پہلے کی بات ہے، اس میں یہ بات تحریر کی گئی تھی کہ ہر جادو گر اور جادو گرنی کو قتل کر دو اور مجوسیوں بجالہ کہتے ہیں: میں جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، وہ احنف بن قیس کے چچا تھے، ہمارے پاس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خط آیا، یہ ان کی وفات سے ایک سال پہلے کی بات ہے، اس میں یہ بات تحریر کی گئی تھی کہ ہر جادو گر اور جادو گرنی کو قتل کر دو اور مجوسیوں
مالک بن اوس بن حدثان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے بلوایا، ابھی تک میں وہیں تھا کہ ان کے خادم یرفا نے آکر بتلایا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا سعد اور سیدنا زبیر بن عوام آئے ہیں، مجھے یہ یاد نہیں کہ اس نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا تھا یا نہیں، یہ حضرات آپ کے ہاںآنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: جی ان حضرات کو آنے دو، کچھ دیر کے بعد غلام نے آکر کہا: سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے ہیں، وہ آپ کے پاس آنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں،انہو ں نے کہا: جی ان کو بھی آنے دو۔ جب سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آئے تو انہو ں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ اس کے اور میرے درمیان فیصلہ کر دیں، اس وقت وہ بنو نضیر کے اموال میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مالِ فی ٔ کے بارے میں الجھ رہے تھے، ان کی بات سن کر سب لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ ان کے درمیان فیصلہ کر دیں اور دونوں کو ایک دوسرے سے راحت دلائیں۔ ان کا یہ جھگڑا خاصا طو ل ہو چکاہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس کے حکم سے یہ آسمان اور زمین قائم ہیں! کیاتم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ ؟ سب نے کہا: جی واقعی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہی بات ان دونوں سے پوچھی تو انھوں نے بھی مثبت جواب دیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمہیں اس مالِ فی ٔ کے بارے میں بتلاتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے مالِ فی ٔ کو اپنے نبی کے لیے مخصوص کیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ یہ کسی دوسرے کو نہیں دیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ}… اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے اپنے رسول کو جو مال فے دیا ہے، اس کے حصول کے لیے تم نے گھوڑوں اور سواریوں کو نہیں بھگایا۔ یہ اموال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خاص تھے، اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہو اکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا مال خود رکھ لیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو اور نہ ہی آپ نے اس مال کے بارے میں دوسروںکو تمہارے ا وپر ترجیح دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سارے اموال تمہارے درمیان تقسیم کر دیتے، پھر اس سے جو بچ جاتا، آپ اس میں سے سارا سال اپنے اہل خانہ پر خرچ کر تے تھے اور جو بچ جاتا، اس کو اللہ کے مال کے طور پر خرچ کردیتے تھے، جب اللہ کے رسول کا انتقال ہوا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ ہوں، میں اس مال میں اسی طرح تصرف کروں گا، جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تصرف کیا کرتے تھے۔
عاصم بن کلیب سے مروی ہے کہ قریش کے بنو تمیم کے ایک بزرگ نے ان کو بیان کیا اس نے چھ سات قریشی بزرگوںکا نام لے کر کہا کہ اس کو ان حضرات نے بیان کیا، ان میں سے ایک نام سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بھی تھا، انہوں نے کہا: ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آئے، ان کے جھگڑنے کی وجہ سے ان کی آوازیں بہت بلند ہورہی تھیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عباس! ذرا رکو تو سہی، تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو میں اسے جانتا ہوں، تم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے بھتیجے تھے، اس لیے مجھے آدھا مال ملنا چاہیے، اور علی! تم بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہو، میں اس کو بھی جانتا ہوں، تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ آپ کی بیٹی تمہاری زوجیت میں ہے اور وہ نصف مال کی حقدار ہے۔ سنو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں جو کچھ تھا، وہ تو وہی ہے جو ہم سب دیکھ چکے ہیں،ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں کیسے تصرف کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ بنے، انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح تصرف کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد میں ان کا نگران مقرر ہوا ہوں، میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکا میں اسی طرح عمل کروں گا۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھا کر کہا کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سچ بولنے والے تھے، ان سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی نبی کاوارث نہیں ہوتا، ان کی میراث تو تنگ دست و نادار مسلمانوں میں تقسیم کیا جاتی ہے۔ او ر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا، جبکہ اللہ کی قسم ہے کہ وہ سچ بولنے والے تھے، یہ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنی امت میں سے کسی کی اقتدا میں نماز ادا نہ کر لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا، ہم سب دیکھ چکے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں کیسے تصرف کیا کرتے تھے، اب اگرتم دونوں چاہو تو میں یہ مال تمہیںدے دیتا ہوں تاکہ تم بھی اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح تصرف کرتے رہو، پس وہ دونوں علیحدہ ہو گئے اور پھر آئے اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: جی آپ یہ مال سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں، میں اس بارے میں علی رضی اللہ عنہ کے حق میں دلی طور پر راضی ہوں۔