مسنداحمد

Musnad Ahmad

خلافت و امارت کے مسائل

فصل سوم: بیت المقدس کی فتح ، جابیہ مقام پر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا مشہور خطاب اور۱۶ھ میں خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امارت سے معزول کرنے کا بیان

۔ (۱۲۲۲۱)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَطَبَ النَّاسَ بِالْجَابِیَۃِ، فَقَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَقَامِی فِیکُمْ، فَقَالَ: ((اسْتَوْصُوا بِأَصْحَابِی خَیْرًا،ثُمَّ الَّذِینَیَلُونَہُمْ، ثُمَّ الَّذِینَیَلُونَہُمْ، ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ حَتّٰی إِنَّ الرَّجُلَ لَیَبْتَدِیُٔ بِالشَّہَادَۃِ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلَہَا، فَمَنْ أَرَادَ مِنْکُمْ بَحْبَحَۃَ الْجَنَّۃِ فَلْیَلْزَمِ الْجَمَاعَۃَ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَمَعَ الْوَاحِدِ، وَہُوَ مِنَ الْاِثْنَیْنِ أَبْعَدُ، لَا یَخْلُوَنَّ أَحَدُکُمْ بِامْرَأَۃٍ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ ثَالِثُہُمَا، وَمَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَسَائَـتْـہُ سَیِّئَتُہُ فَہُوَ مُؤْمِنٌ۔)) (مسند احمد: ۱۱۴)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطاب کیا اور اس میں کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان اسی طرح کھڑے ہوئے تھے، جیسے میں تمہارے درمیان کھڑ اہوں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیںاپنے صحابہ سے اچھا سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہوں، اور ان کے بعد آنے والے لوگوں اور پھر اُن لوگوں کے بعد آنے والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی تمہیں وصیت کرتا ہوں، ان زمانوں کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ آدمی گواہی کا مطالبہ کیے جانے سے پہلے گواہی دینا شروع کر دے گا، پس تم میں سے جو آدمی جنت کے وسط میں مقام بنانا چاہے، وہ جماعت کے ساتھ مل کر رہے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور اگر دو آدمی اکٹھے ہوں تو وہ ان سے زیادہ دور رہتا ہے اور تم میں سے کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ علیحدہ نہ ہو، کیونکہ ان میں تیسرا شیطان ہو گا، نیز جب کسی آدمی کو اس کی نیکی اچھی لگے اور برائی بری لگے تو وہ مؤمن ہو گا۔

۔ (۱۲۲۲۲)۔ عَنْ نَاشِرَۃَ بْنِ سُمَیٍّ الْیَزَنِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ یَقُولُ فِییَوْمِ الْجَابِیَۃِ وَہُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَنِی خَازِنًا لِہٰذَا الْمَالِ وَقَاسِمَہُ لَہُ، ثُمَّ قَالَ: بَلِ اللّٰہُ یَقْسِمُہُ وَأَنَا بَادِئٌ بِأَہْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ فَفَرَضَ لِأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشْرَۃَ آلَافٍ إِلَّا جُوَیْرِیَۃَ وَصَفِیَّۃَ ومَیْمُونَۃَ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْدِلُ بَیْنَنَا فَعَدَلَ بَیْنَہُنَّ عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّی بَادِئٌ بِأَصْحَابِی الْمُہَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ، فَإِنَّا أُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا ظُلْمًا وَعُدْوَانًا ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ، فَفَرَضَ لِأَصْحَابِ بَدْرٍ مِنْہُمْ خَمْسَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ کَانَ شَہِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَرْبَعَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ شَہِدَ أُحُدًا ثَلَاثَۃَ آلَافٍ، قَالَ: وَمَنْ أَسْرَعَ فِی الْہِجْرَۃِ أَسْرَعَ بِہِ الْعَطَائُ، وَمَنْ أَبْطَأَ فِی الْہِجْرَۃِ أَبْطَأَ بِہِ الْعَطَائُ، فَلَا یَلُومَنَّ رَجُلٌ إِلَّا مُنَاخَ رَاحِلَتِہِ، وَإِنِّی أَعْتَذِرُ إِلَیْکُمْ مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، إِنِّی أَمَرْتُہُ أَنْ یَحْبِسَ ہٰذَا الْمَالَ عَلٰی ضَعَفَۃِ الْمُہَاجِرِینَ، فَأَعْطٰی ذَا الْبَأْسِ وَذَا الشَّرَفِ وَذَا اللَّسَانَۃِ، فَنَزَعْتُہُ وَأَمَّرْتُ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَالَ أَبُو عَمْرِو بْنُ حَفْصِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ: وَاللّٰہِ! مَا أَعْذَرْتَ یَا عُمَرُ بْنَ الْخَطَّابِ! لَقَدْ نَزَعْتَ عَامِلًا اسْتَعْمَلَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَغَمَدْتَ سَیْفًا سَلَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعْتَ لِوَائً نَصَبَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَقَدْ قَطَعْتَ الرَّحِمَ، وَحَسَدْتَ ابْنَ الْعَمِّ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّکَ قَرِیبُ الْقَرَابَۃِ، حَدِیثُ السِّنِّ، مُغْضَبٌ مِنْ ابْنِ عَمِّکَ۔ (مسند احمد: ۱۶۰۰۰)

ناشرہ بن سمی یزنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جابیہ کے مقام پر سنا، وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مال کا خازن او رتقسیم کنند ہ بنایا ہے۔ پھر کہا: دراصل اللہ تعالیٰ ہی تقسیم کرنے والا ہے، اب میں تقسیم کرتے وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل خانہ سے ابتداء کرتا ہوں، پھر ان کے بعد جو افضل ہو گا، اسے دوں گا، چنانچہ انہوں نے امہات المومنین میں سیدہ جو یریہ، سیدہ صفیہ اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہن کے سوا باقی تمام ازواج مطہرات کے لیے دس دس ہزار مقرر کیے، لیکن جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو ہمارے درمیان عدل اور برابری فرمایا کرتے تھے، پس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سب کو برابر برابر حصہ دیا ہے اورپھر کہا: اب میں سب سے پہلے ان حضرات کو دیتا ہوں جو اولین مہاجرین میں سے ہیں، کیونکہ ان لوگوں پر ظلم اورزیادتی کرتے ہوئے ان کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا تھا، ان کے بعد جو لوگ فضل و شرف والے ہوں گے، ان کو دوں گا، پس انہوں نے اصحاب بدر کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے اور انصاری بدری صحابہ کے لیے چار چار ہزار اور شرکائے احد کے لیے تین تین ہزار مقرر کیے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا: جس نے ہجرت کرنے میں جلدی کی، اس کو زیادہ دیا جائے گا اور جس نے ہجرت کرنے میںدیر کی، میں بھی اس کو کم حصہ دوں گا، ہر آدمی اپنے اونٹ کے بٹھانے کی جگہ کو ملامت کرے (یعنی اگر کسی کو حصہ کم دیا جا رہا ہے تو وہ اس کی اپنی تاخیر کی وجہ سے ہے، وہ ہم پر طعن نہ کرے) اورمیں تمہارے سامنے خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں معذرت پیش کرتا ہوں،ـ میں نے انہیں حکم دیا تھا کہ یہ مال کمزور مہاجرین میں تقسیم کریں، لیکن انہوں نے یہ مال تندرست، اصحاب مرتبہ اور چالاک لوگوں میں تقسیم کر دیا، اس لیے میں یہ ذمہ داری ان سے لے کر سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سونپتا ہوں،یہ سن کر ابو عمر بن حفص بن مغیرہ نے کہا: اللہ کی قسم! اے عمر بن خطاب! آپ کا عذر معقول نہیں، آپ نے اس عامل کو معزدل کیا ہے جسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا، آپ نے اس تلوار کو نیام میں بند کیا ہے، جسے اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لہرایا تھا اور آپ نے اس جھنڈے کو لپیٹ دیا ہے، جس کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نصب کیا تھا اور آپ نے یہ کام کر کے اپنے چچا زاد سے قطع رحمی کی ار اس سے حسد کا ثبوت دیا ہے۔ یہ باتیں سن کر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم اپنے اس چچازاد کے قریبی رشتہ دار ہو اور نو عمر ہو، سو تم اس کے حق میں طرف داری کر رہے ہو۔