مسنداحمد

Musnad Ahmad

خلافت و امارت کے مسائل

فصل پنجم: ۱۹ھ میں سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سرز مین خیبر سے یہودیوں کو جلا وطن کرنا

۔ (۱۲۲۲۴)۔ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِی نَافِعٌ مَوْلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَالزُّبَیْرُ والْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَی أَمْوَالِنَا بِخَیْبَرَ نَتَعَاہَدُہَا، فَلَمَّا قَدِمْنَاہَا تَفَرَّقْنَا فِی أَمْوَالِنَا، قَالَ: فَعُدِیَ عَلَیَّ تَحْتَ اللَّیْلِ، وَأَنَا نَائِمٌ عَلَی فِرَاشِی، فَفُدِعَتْ یَدَایَ مِنْ مِرْفَقِی، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اسْتُصْرِخَ عَلَیَّ صَاحِبَایَ، فَأَتَیَانِی فَسَأَلَانِی عَمَّنْ صَنَعَ ہٰذَا بِکَ؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِی، قَالَ: فَأَصْلَحَا مِنْیَدَیَّ، ثُمَّ قَدِمُوْا بِی عَلٰی عُمَرَ، فَقَالَ: ہَذَا عَمَلُ یَہُودَ، ثُمَّ قَامَ فِی النَّاسِ خَطِیبًا، فَقَالَ: أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عَامَلَ یَہُودَ خَیْبَرَ عَلٰی أَنَّا نُخْرِجُہُمْ إِذَا شِئْنَا، وَقَدْ عَدَوْا عَلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَفَدَعُوْا یَدَیْہِ کَمَا بَلَغَکُمْ مَعَ عَدْوَتِہِمْ عَلَی الْأَنْصَارِ قَبْلَہُ لَا نَشُکُّ أَنَّہُمْ أَصْحَابُہُمْ، لَیْسَ لَنَا ہُنَاکَ عَدُوٌّ غَیْرُہُمْ، فَمَنْ کَانَ لَہُ مَالٌ بِخَیْبَرَ فَلْیَلْحَقْ بِہِ، فَإِنِّی مُخْرِجٌ یَہُودَ فَأَخْرَجَہُمْ۔ (مسند احمد: ۹۰)

سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خیبر میں اپنے اموال کی دیکھ بھال کے لیے گئے، وہاں پہنچ کر ہم میں ہر کوئی اپنے اپنے مال میں چلا گیا، میں اپنے بستر پر رات کو سویا ہوا تھا کہ مجھ پر حملہ کر دیا گیا اور کہنیوں سے میرے دونوں بازئوں کو اس طرح کھینچا گیا کہ جوڑوں میں کجی پیدا ہو گئی، جب صبح ہوئی تو میرے دونوں ساتھیوں کو میرے پاس میری مدد کے لیے بلایا گیا،جب وہ میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھ سے کہا:تمہارے ساتھ یہ کاروائی کس نے کی ہے؟ میں نے کہا: مجھے تو کوئی پتہ نہیں ہے کہ وہ کون تھے، انہوں نے میرے ہاتھوں کا علاج کیا اور مجھے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس لے گئے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ یہودیوں کی کارستانی ہے، پھر وہ خطاب کرنے کے لیے لوگوں میں کھڑے ہوئے اور کہا، لوگو! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے معاہدہ کیا تھا کہ جب ہم چاہیں گے، انہیں یہاں سے نکال سکیں گے۔ ان لوگوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے زیادتی کی ہے اور ان کے ہاتھ کھینچ ڈالے ہیں، جیسا کہ تم کو پتہ چل چکا ہے اور اس سے پہلے یہ انصاریوں سے دشمنی کا اظہار کر چکے ہیں، اب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ زیادتیاں انھوں نے ہی کی ہیں، کیونکہ یہاں ہمارا کوئی اور دشمن ہی نہیں ہے، لہذا خیبر میں جس جس آدمی کا مال ہے، وہ جاکر اسے سنبھال لے، میں یہودیوں کو خیبر سے نکالنے ہی والا ہوں۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہودیوںکو وہاں سے جلا وطن کر دیا۔