مسنداحمد

Musnad Ahmad

نماز کو باطل کرنے والے اور اس میں مکروہ اور جائز امور کا بیان

نماز میں کلام کرنے کی ممانعت کا بیان

۔ (۱۸۸۴) عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرَقَمَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ یُکَلِّمُ صَاحِبَہُ عَلٰی عَھْدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْحَاجَۃِ فِی الصَّلاَۃِ حَتّٰی نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ {وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ} فَأُمِرْنَا بِالسُّکُوْتِ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۹۳)

سیدنازید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں نماز میں اپنے ساتھی سے ضرورت کی کوئی بات کرلیتا تھا، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی {وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ} (اور اللہ تعالیٰ کے لیے فرمانبردار ہو کر کھڑے رہا کرو) اس کے بعد ہمیں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا۔

۔ (۱۸۸۵) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ یَعْنِی (ابْنَ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) قَالَ: کُنَّا نُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ فِی الصَّلاَۃِ فَیَرُدُّ عَلَیْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِیِّ سَلَّمْنَا عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْنَا فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کُنَّا نُسَلِّمُ عَلَیْکَ فِی الصَّلاَۃِ فَتَرُدُّ عَلَیْنَا، فَقَالَ: ((إِنَّ فِی الصَّلاَۃِ لَشُغْلاً۔)) (مسند احمد: ۳۵۶۳)

سیدناعبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کرتے تھے، جب کہ آپ نماز میں ہوتے، اور آپ ہمیں جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نے نجاشی کے پاس سے واپس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا تو آپ نے ہمیں جواب نہ دیا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نماز میں آپ کو سلام کہتے تھے توآپ جواب دیتے تھے، (لیکن آج؟) تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یقینا نماز میں مصروفیت ہوتی ہے۔

۔ (۱۸۸۶) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ) قَالَ: کُنَّا نُسَلِّمُ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا کُنَّا بِمَکَّۃَ قَبْلَ أَنْ نَأْتِیَ أَرْضَ الْحَبَشَۃِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَۃِ أَتَیْنَاہُ فَسَلَّمْنَا عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ، فَأَخَذَنِیْ مَا قَرُبَ وَمَا بَعُدَ حَتّٰی قَضَوُا الصَّلاَۃَ فَسَأَلْتُہُ، فَقَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلُّ یُحْدِثُ فِی أَمْرِہِ مَا یَشَائُ وَإِنَّہُ قَدْ أَحْدَثَ مِنْ أَمْرِہِ أَنْ لاَ نَتَکَلَّمَ فِی الصَّلاَۃِ۔)) (مسند احمد: ۳۵۷۵)

۔ (دوسری سند)وہ کہتے ہیں: جب ہم حبشہ کی طرف جانے سے پہلے مکہ میں ہوتے تھے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نماز میں سلام کہتے تھے (اور آپ سلام کا جواب دیتے تھے)، لیکن جب ہم حبشہ کے علاقے سے واپس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا تو آپ نے جواب نہ، مجھے تو قریب کی اوردور کی وجوہات نے پکڑ لیا (کہ جواب نہ دینے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، بالآخر) جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سوال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے نیا حکم کرتا ہے، اب اس سے نیا حکم یہ دیا ہے کہ ہم نماز میں کلام نہ کریں۔

۔ (۱۸۸۷) عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَیْنَا نَحْنُ نُصَلِّیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ، فَرَمَانِیَ الْقَوْمُ بِأَبْصَارِھِم فَقُلْتُ: وَاثُکْلَ أُمِّیَاہ! مَاشَأْنُکُمْ تَنْظُرُوْنَ إِلَیَّ؟ قَالَ: فَجَعَلُوْا یَضْرِبُوْنَ بِأَیْدِیْہِمْ عَلٰی أَفْخَاذِھِمْ فَلَمَّا رَأَیْتُہُمْیُصَمِّتُوْنَنِیْ، لٰکِنِّیْ سَکَتُّ، فَلَمَّا صَلّٰی رَسُوْلُ اللَّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَبِأَبِیْ ھُوَ وَأُمِّیْ مَا رَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَہُ وَلاَ بَعْدَہُ أَحْسَنَ تَعْلِیْمًا مِنْہُ، وَاللّٰہِ! مَا کَہَرَنِیْ وَلاَشَتَمَنِیْ وَلاَضَرَبَنِیْ، قَالَ: ((إِنَّ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ لاَ یَصْلُحُ فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ کَلاَمِ النَّاسِ ھٰذَا، إِنَّمَا ھِیَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَقِرَائَ ۃُ الْقُرْآنِ۔)) أَوْکَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّا قَوْمٌ حَدِیْثُ عَہْدٍ بِالْجَاھِلِیَّۃِ وَقَدْ جَائَ اللّٰہُ بِالإِْ سْلاَمِ، وَإِنَّ مِنَّا قَوْمًا یَأْتُوْنَ الْکُہَّانَ۔ قَالَ: ((فَلاَ تَأْتُوْھُمْ۔)) قُلْتُ: إِنَّ مِنَّا قَوْمًا یَتَطَیَّرُوْنَ، قَالَ: ((ذَاکَ شَیْئٌیَجِدُوْنَہُ فِیْ صُدُوْرِھِمْ فَلاَیَصُدَّنَّہُمْ۔)) قُلْتُ: إِنَّ مِنَّا قَوْمًا یَخُطُّوْنَ۔ قَالَ: ((کَانَ نَبِیٌّیَخُطُّ فَمَنْ وَّافَقَ خَطَّہُ فَذٰلِکَ۔)) قَالَ وَکَانَتْ لِیْ جَارِیَۃٌ تَرْعٰی غَنَمًا (فَذَکَرَ قِصَّتَہَا)۔ (مسند احمد: ۲۴۱۶۳)

سیدنامعاویہ بن حکم سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایک دفعہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اچانک ایک آدمی نے چھینکا، میں نے اسے یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہا، اس وجہ سے لوگ تو مجھے گھورنے لگ گئے، میں نے ان سے کہا: ہائے میری ماں مجھے گم پائے! تم کو کیا ہو گیا ہے کہ میری طرف دیکھ رہے ہو؟ لوگ تو اپنے ہاتھ رانوں پر مارنے لگے، جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کروا رہے ہیں (تو میں نے کچھ کہنا چاہا) لیکن میں خاموش ہوگیا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے، پس میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی ایسا استاد نہیں دیکھا ہے جو تعلیم میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اچھا ہو، اللہ کی قسم! نہ آپ نے مجھے جھڑکا ، نہ برا بھلا کہا اور نہ مجھے مارا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بلاشبہ یہ نماز ہے، اس میں لوگوں کے کلام سے کوئی چیز بھی درست نہیں ہے، یہ تو صرف تسبیح، تکبیر اور قراء تِ قرآن ہے۔ یا جیسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگوں کا جاہلیت والا زمانہ قریب ہے، اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام عطا کیا ہے، تو ہم میں بعض لوگ کاہنوں اور نجومیوں کے پاس جاتے ہیں(اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے) ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان کے پاس نہ جایا کرو۔ میں نے کہا: اور ہم میں کچھ لوگ بری فال لیتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگ اس چیز کو اپنے دلوں میں محسوس تو کر جاتے ہیں، لیکنیہ ان کو کسی کام سے روکنے نہ پائے۔ میں نے کہا: ہم میں بعض لوگ لکیریں کھینچتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک نبی خط کھینچتا تھا، جس کا خط اس کے موافق ہوگیا وہ تو درست ہو گا۔ میں نے کہا: اورمیری ایک لونڈی بکریاں چراتی تھی، ……۔ پھر اس کا واقعہ ذکر کیا۔