مسنداحمد

Musnad Ahmad

نماز کو باطل کرنے والے اور اس میں مکروہ اور جائز امور کا بیان

نماز میں بال باندھنے، کنکریوں سے کھیلنے اور پھونکنے کا بیان

۔ (۱۸۹۶) عَنْ کُریْبٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ رَأیٰ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْحَارِثِ یُصَلِّیْ وَرَأْسُہُ مَعْقُوْصٌ مِنْ وَرَائِہٖفَقَامَوَرَائَہُوَجَعَلَیَحُلُّہُ وَأَقَرَّ لَہُ الْآخَرُ ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ: مَالَکَ وَرَأْسِیْ؟ قَالَ: إِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((إِنَّمَا مَثَلُ ھٰذَا کَمَثَلِ الَّذِیْیُصَلِّیْ وَھُوَ مَکْتُوْفٌ۔)) (مسند احمد: ۲۷۶۷)

کریب کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عبد اللہ بن حارث کو اس حالت میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ ان کے سر کے بال پیچھے سے بندھے ہوئے تھے، وہ ان کے بال کھولنے لگے اور انھوں نے بھی ان کو ایسا کرنے پر برقرار رکھا۔ لیکن وہ (نماز کے بعد) سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر متوجہ ہوئے اور کہا: آپ کو میرے سر کے ساتھ کیا تھا؟ انہوں نے کہا:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اس طرح کر کے نماز پڑھتا ہے، اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو اس حال میں نماز ادا کرتا ہے کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں۔

۔ (۱۸۹۷) عَنْ أَبِیْ رَافِعٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ (مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) قَالَ: نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُّصَلِّیَ الرَّجُلُ وَشَعْرُہُ مَعْقُوصٌ۔ (مسند احمد: ۲۷۷۲۶)

مولائے رسول اللہ سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ آدمی اس حال میں نماز پڑھے کہ اس کے بال باندھے ہوئے ہوں۔

۔ (۱۸۹۸) عَنْ عَلَیِّ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْمَعَاوِیِّ قَالَ صَلَّیْتُ إِلٰی جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَلَبْتُ الْحَصٰی، فَقَالَ: لاَ تَقْلِبِ الْحَصٰی فَإِنَّہُ مِنَ الشَّیْطَانِ وَلٰکِنْ کَمَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَفْعَلُ، کَانَ یُحَرِّکُہُ ھٰکَذَا، قَالَ أَبُوْ عَبْدِاللّٰہِ یَعْنِی مَسْحَۃً۔ (مسند احمد: ۴۵۷۵)

علی بن عبدالرحمن معاوی کہتے ہیں:میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پہلو میں نماز پڑھی اور نماز میں کنکریوں کو الٹ پلٹ کیا، انہوں نے کہا: کنکریوںکو الٹ پلٹ نہ کرو، کیونکہ ایسا کرنا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، البتہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس طرح حرکت دے لیتے تھے۔ امام ابو عبد اللہ احمد نے کہا: یعنی ایک دفعہ

۔ (۱۸۹۹) عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِذَا قَامَ أَحَدُکُمْ إِلَی الصَّلاَۃِ فَإِنَّ الرَّحَمْۃَ تُوَاجِہُہُ فَلاَ یَمْسَحِ الْحَصٰی (وَفِیْ رِوَایَۃ)ٍ فَلاَ یُحَرِّکِ الْحَصٰی، أَوْ لَا یَمَسََّ الْحَصٰی۔ (مسند احمد: ۲۱۶۵۶)

سیدناابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو کنکریوں کو صاف نہ کرے یا ان کو حرکت نہ دے یا ان کو نہ چھوئے، کیونکہ رحمت اس کے سامنے ہوتی ہے۔

۔ (۱۹۰۰) عَنْ جَاِبرِ بْنِِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ مَسْحِ الْحَصٰی فَقَالَ: ((وَاحِدَۃً، وَلَئِنْ تُمْسِکْ عَنْہَا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ مِائَۃِ بَدَنَۃٍ کُلُّہَا سُوْدُ الْحَدَقَۃِ (زَادَفِیْ رِوَایَۃٍ) فَاِنْ غَلَبَ أَحَدَکُمُ الشَّیْطَانُ فَلْیَمْسَحْ مَسْحَۃً وَاحِدَۃً)) (مسند احمد: ۱۴۲۵۳)

سیدناجابربن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کنکریوں کو چھونے کے بارے سوال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک مرتبہ کر لو، اور اگر اس سے بھی رک جاؤ تو یہ تمہارے لیے سیاہ آنکھوں والے سو اونٹوں سے بہتر ہے اور اگر تم میں سے کسی پر شیطان غالب آ جائے تو وہ ایک دفعہ صاف کر لیا کرے۔

۔ (۱۹۰۱) عَنْ مُعَیْقِیْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قِیْلَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَسْحُ فِی الْمَسْجِدِ یَعْنِی الْحَصٰی فَقَالَ: ((إِنْ کُنْتَ لاَبُدَّ فَاعِلاً فَوَا حِدَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۴۰۰۹)

سیدنا معیقیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا گیا کہ سجدہ گاہ میں کنکریوں کو چھونا کیسا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگرضروری کرنا ہی ہو تو ایک دفعہ کر لیا کر۔

۔ (۱۹۰۲)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ) إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ فِی الرَّجُلِ یُسَوِّی التُّرَابَ حَیْثُیَسْجُدُ قَالَ: ((إِنْ کُنْتَ فَاعِلاً فَوَاحِدَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۴۰۱۱)

۔ (دوسری سند) جو آدمی سجدے والی جگہ سے مٹی صاف کرتا ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: اگر تو نے کرنا ہی ہے تو ایک دفعہ کر لیا کر۔

۔ (۱۹۰۳) عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَاریِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنْتُ أُصَلِّیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الظُّہْرَ فَآخُذُ قَبْضَۃً مِنْ حَصًی فِیْ کَفِّیْ لِتَبْرُدَ حَتّٰی أَسْجُدَ عَلَیْہِ مِنْ شِدَّۃِ الْحَرِّ (وَفِیْرِوَایَۃٍ) فَأَجْعَلُہَا فِییَدِیَ الْأُخْرٰی حَتّٰی تَبْرُدَ مِنْ شَدَِّۃِ الْحَرِّ۔ (مسند احمد: ۱۴۵۶۱)

سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھتا تھا، گرمی کی شدت کی وجہ سے میں مٹھی بھر کنکریاں اپنی ہتھیلی میں پکڑ لیتا تاکہ وہ ٹھنڈی ہو جائیں اور پھر میں ان پر سجدہ کر سکوں۔ایک روایت میں ہے: گرمی کی شدت کی وجہ سے میں ان کو دو سر ے ہاتھ میں کرلیتا تاکہ وہ ٹھنڈی ہوجائیں۔

۔ (۱۹۰۴) عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ (زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) فَدَخَلَ عَلَیْہَا ابْنُ أَخٍ لَھَا فَصَلّٰی فِی بَیْتِھَا رَکْعَتَیْنِ، فَلَمَّا سَجَدَ نَفَخَ التُّرَابَ، فَقَالَتْ لَہُ أُمُّ سَلَمَۃَ: اِبْنَ أَخِیْ! لاَ تَنْفُخْ، فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ لِغُلَامٍ لَہُ یُقَالُ لَہُ یَسَارٌ وَنَفَخَ: ((تَرِّبْ وَجْہَکَ لِلّٰہِ)) (مسند احمد: ۲۷۱۰۷)

ابو صالح کہتے ہیں: میں زوجۂ رسول سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گیا، جبکہ ان کے پاس ان کا ایک بھتیجا بھی آگیا تھا، اس نے ان کے گھر میں دو رکعت نماز پڑھی، جب اس نے سجدہ کیا تو مٹی کو پھونک ماری، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اسے کہا: بھتیجے! پھونک نہ مار، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے یسارنامی غلام نے پھونک ماری اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: اللہ کے لئے اپنے چہرے کو مٹی لگنے دے۔

۔ (۱۹۰۵) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو (ابْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَصِفُ صَلَاۃَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی کُسُوْفِ الشَّمْسِ قَالَ …… وَجَعَلَ یَنْفُخُ فِیْ الْأَرْضِ وَیَبْکِیْ وَھُوَ سَاجِدٌ فِیْ الرَّکْعَۃِ الثَّانِیْۃِ وَجَعَلَ یَقُوْلُ: ((رَبِّ لِمَ تُعَذِّبُہُمْ وَأَنَا فِیْہِمْ، رَبِّ لِمَ تُعَذِّبُنَا وَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُکَ۔)) فَرَفَعَ رَأْسَہُ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، الحدیث۔ (مسند احمد: ۶۴۸۳)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سورج گرہن کے موقع پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کرتے کہا: … … پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسری رکعت میں سجدے کی حالت میں زمین پر پھونک مارنا ، رونا اور یہ کہنا شروع کر دیا: رَبِّ لِمَ تُعَذِّبُہُمْ وَأَنَا فِیْہِمْ، رَبِّ لِمَ تُعَذِّبُنَا وَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُکَ۔ (اے میرے ربّ! تو ان کو کیوں عذاب دیتا ہے، جب کہ میں ان میں موجود ہوں، تو ہمیں کیوں عذاب دیتا ہے، جبکہ ہم تجھ سے بخشش طلب کر رہے ہیں)۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اٹھایا تو سورج صاف ہو چکا تھا، …۔ الحدیث