کریب کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن حارث کو اس حالت میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ ان کے سر کے بال پیچھے سے بندھے ہوئے تھے، وہ ان کے بال کھولنے لگے اور انھوں نے بھی ان کو ایسا کرنے پر برقرار رکھا۔ لیکن وہ (نماز کے بعد) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ پر متوجہ ہوئے اور کہا: آپ کو میرے سر کے ساتھ کیا تھا؟ انہوں نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اس طرح کر کے نماز پڑھتا ہے، اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو اس حال میں نماز ادا کرتا ہے کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں۔
مولائے رسول اللہ سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ آدمی اس حال میں نماز پڑھے کہ اس کے بال باندھے ہوئے ہوں۔
علی بن عبدالرحمن معاوی کہتے ہیں:میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں نماز پڑھی اور نماز میں کنکریوں کو الٹ پلٹ کیا، انہوں نے کہا: کنکریوںکو الٹ پلٹ نہ کرو، کیونکہ ایسا کرنا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، البتہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح حرکت دے لیتے تھے۔ امام ابو عبد اللہ احمد نے کہا: یعنی ایک دفعہ
سیدناابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو کنکریوں کو صاف نہ کرے یا ان کو حرکت نہ دے یا ان کو نہ چھوئے، کیونکہ رحمت اس کے سامنے ہوتی ہے۔
سیدناجابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کنکریوں کو چھونے کے بارے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک مرتبہ کر لو، اور اگر اس سے بھی رک جاؤ تو یہ تمہارے لیے سیاہ آنکھوں والے سو اونٹوں سے بہتر ہے اور اگر تم میں سے کسی پر شیطان غالب آ جائے تو وہ ایک دفعہ صاف کر لیا کرے۔
سیدنا معیقیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سجدہ گاہ میں کنکریوں کو چھونا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگرضروری کرنا ہی ہو تو ایک دفعہ کر لیا کر۔
۔ (دوسری سند) جو آدمی سجدے والی جگہ سے مٹی صاف کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: اگر تو نے کرنا ہی ہے تو ایک دفعہ کر لیا کر۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھتا تھا، گرمی کی شدت کی وجہ سے میں مٹھی بھر کنکریاں اپنی ہتھیلی میں پکڑ لیتا تاکہ وہ ٹھنڈی ہو جائیں اور پھر میں ان پر سجدہ کر سکوں۔ایک روایت میں ہے: گرمی کی شدت کی وجہ سے میں ان کو دو سر ے ہاتھ میں کرلیتا تاکہ وہ ٹھنڈی ہوجائیں۔
ابو صالح کہتے ہیں: میں زوجۂ رسول سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، جبکہ ان کے پاس ان کا ایک بھتیجا بھی آگیا تھا، اس نے ان کے گھر میں دو رکعت نماز پڑھی، جب اس نے سجدہ کیا تو مٹی کو پھونک ماری، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اسے کہا: بھتیجے! پھونک نہ مار، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یسارنامی غلام نے پھونک ماری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: اللہ کے لئے اپنے چہرے کو مٹی لگنے دے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سورج گرہن کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کرتے کہا: … … پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری رکعت میں سجدے کی حالت میں زمین پر پھونک مارنا ، رونا اور یہ کہنا شروع کر دیا: رَبِّ لِمَ تُعَذِّبُہُمْ وَأَنَا فِیْہِمْ، رَبِّ لِمَ تُعَذِّبُنَا وَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُکَ۔ (اے میرے ربّ! تو ان کو کیوں عذاب دیتا ہے، جب کہ میں ان میں موجود ہوں، تو ہمیں کیوں عذاب دیتا ہے، جبکہ ہم تجھ سے بخشش طلب کر رہے ہیں)۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر اٹھایا تو سورج صاف ہو چکا تھا، …۔ الحدیث