سیدناابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ عصرکے بعددو رکعتیںپڑھتے تھے۔
جناب مسروق کہتے ہیں: مجھے صدیقہ بنت صدیق، اللہ کے محبوب کی محبوبہ ،بہتان سے بری سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے،میں نے ان کی تکذیب نہیں کی۔
ہشام نے کہا: مجھے میرے باپ نے خبر دی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: اے میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کے بعد میرے پاس کبھی بھی دو رکعتیں نہیں چھوڑیں تھیں۔
اسود بن یزید اور مسروق دونوں نے کہا: ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر شہادت دیتے ہیں کہ انہوں نے یہ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس ہوتے تو عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔
شریح کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عصر کے بعد نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا: نماز پڑھ لیاکر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو تیری قوم اہل یمن کو اس وقت نماز پڑھنے سے منع کیا تھا، جب سورج طلوع ہورہا ہو۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں : دو نمازیں ایسی ہیں کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خفیہ طور پرچھوڑا نہ ظاہری طور پر ، یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں۔
ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں: میرے باپ نے عمرہ کرنے کا ارادہ کیا، جب ان کے سفر کے لئے نکلنے کا وقت آیا تو انھوں نے مجھے کہا: اے میرے پیارے بیٹے! اگر ہم امیر (مروان بن حکم) کے پاس جائیں اور اس سے الوداع ہوں(تواچھا ہو گا)، میں نے کہا: جیسے آپ چاہیں، پھر ہم مروان کے پا س گئے اور اس وقت اس کے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ان میں سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہوں نے ان دو رکعتوں کا تذکرہ کیا، جنہیں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ عصر کے بعد پڑھتے تھے، مروان نے ان سے کہا: اے ابن زبیر! آپ نے دو رکعتیں کس سے لی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے مجھے ان کے بارے میں بتایا ہے، مروان نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ ان دو رکعتیں کی حقیقت کیا ہے، جو سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وساطت سے آپ کی طرف منسوب کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کے بعد ان کو ادا کیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواباً یہ پیغام بھیجا کہ مجھے تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا تھا، یہ سن کر مروان نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ ان دو رکعتوں کی کیا حقیقت ہے، جن کے متعلق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خیال کیا ہے کہ آپ نے انہیں بتایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کے بعد یہ دو رکعتیں پڑھی ہیں، انہوں نے کہا: اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو معاف فرمائے، انھوں نے میری خبر کو اس کے غیرمحل پر رکھ دیا ہے، بہرحال معاملہ اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی، اسی وقت آپ کے پاس کچھ مال لایا گیا اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے تقسیم کرنے بیٹھ گئے، حتیٰ کہ مؤذن عصر کا پیغام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر پڑھی اور پھر میری طرف آئے، کیونکہیہ میری باری کا دن تھا، اس وقت آپ نے ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھیں، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ دو رکعتیں کیسی ہیں؟ آپ کو اِن کے متعلق کوئی نیا حکم دیاگیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بات یہ ہے کہ میں ظہر کے بعد جو دو رکعتیں پڑھا کرتا تھا، مال کی تقسیم نے مجھے ان سے مشغول کردیا، حتیٰ کہ مؤذن عصر کا پیغام لے کر میرے پاس آگیا، اب میں نے ان کو چھوڑنا ناپسند کیا۔ یہ سن کر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ اکبر، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ تو یہ رکعتیں پڑھی ہیں، لہٰذا اللہ کی قسم ہے کہ میں تو ان کو نہیں چھوڑوں گا، لیکن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انھوں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے اس واقعہ سے پہلے یہ دو رکعتیں پڑھی ہوں یا بعد میں۔
عبید اللہ بن عبد اللہ نے کہا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف یہ بات پوچھنے کے لیے بھیجا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کے بعد کوئی نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: میرے پاس تو ایسے نہیں ہوا، البتہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھی تھیں، لہٰذا تم ان کی طرف پیغام بھیج کر ان سے پوچھ لو، پس انھوں نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا، انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کے بعد میرے پاس آئے اور یہ دورکعتیںپڑھیں، میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا ان دو رکعتوںکے بارے میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بات یہ ہے کہ میں ظہر کی نماز پڑھ کر مصروف ہو گیاتھا، اس لیے اب عصر کے بعد ان کو ادا کیا ہے۔
یزید بن ابی زیاد کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن حارث سے عصر کے بعد والی دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا، انہوں نے کہا: میں اور سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، انھوں نے کہا: ابن عباس! تو نے عصر کے بعد والی دو رکعتوں کا ذکر کیا ہے اور مجھے یہ خبر ملی ہے کہ لوگ ان کو ادا کرتے ہیں، حالانکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھا ہے کہ آپ نے یہ نماز پڑھی ہو اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قسم کا کوئی حکم دیا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ وہ چیز ہے کہ جس کے متعلق سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ لوگوں سے بات کرتے ہیںیعنی وہ ان کو پڑھنے کا فتویٰ دیتے ہیں ، پس سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ان دو رکعتوں کی کیا حقیقت ہے کہ جن کے بارے میں آپ لوگوں سے بات کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا: مجھے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث بیان کی ہے، یہ سن کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدہعائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دو آدمیوں کو یہ پیغام دے کر بھیجا: امیر المومنین آپ کو سلام کہتے ہیں اور وہ پوچھ رہے ہیں کہ ان دو رکعتوں کی حقیقت کیا ہے جن کے بارے میں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہیں کہ آپ نے انہیں عصر کے بعد پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: یہوہ چیز ہے، جس کی مجھے تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی تھی، چنانچہ ہم سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گائے اور انہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات بتلائی، آگے سے انہوں نے کہا: اللہ عائشہ پر رحم کرے، کیا میں نے انہیںیہ خبر نہیں دے دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے۔
زوجۂ رسول سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ کہتی ہیں: میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کے بعد کبھی نماز پڑھی ہو، البتہ ایک مرتبہ ایسے ہوا تھا کہ لوگ ظہر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے انہوں نے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی کام میں مصروف کردیا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھ سکے، یہاں تک کہ عصر کی نماز ادا کی، پھر جب آپ میرے گھر تشریف لائے تو وہ دو رکعتیں پڑھیں۔
عبد اللہ بن ابی قیس کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عصر کے بعد والی دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا،انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے، ایک دن آپ مشغول ہو گئے اور یہ دو رکعتیں ادا نہ کر سکے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھ لی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہو کرمیر ے گھر میں آئے تو ان کو ادا کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو وفات پانے تک تر ک نہیں کیا۔ عبد اللہ بن ابی قیس کہتے ہیں: پھر جب میں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ہم یہ نماز پڑھتے تو تھے، لیکن بعد میں اس کو ترک کر دیا تھا۔
عبد اللہ بن ابی موسیٰ کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو صدقہ وصول کرکے لیے بھیجا تھا، وہ آپ کے پاس ظہر کے وقت واپس آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی اور تقسیم میں مصروف ہوگئے، حتیٰ کہ آپ نے عصر کی نماز پڑھی، پھر وہ دو رکعتیں ادا کیں۔
عبد اللہ بن حارث کہتے ہیں: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو عصر کی نماز پڑھائی، جب مڑ کر دیکھا تو کچھ لوگ عصر کے بعد نماز پڑھ رہے تھے، وہ گھر چلے گئے اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس چلے گئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے لئے چار پائی پر جگہ بنائی اور وہ ان کے ساتھ بیٹھ گئے، انھوں نے پوچھا: یہ کون سی نماز ہے، جومیں نے لوگوں کو ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے، حالانکہ نہ تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور نہ آپ نے اس کے بارے میں کوئی حکم دیا؟ انہوں نے کہا: لوگوں کو اس کا فتویدینے والے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر ان کو بلایا گیا اور وہ آ گئے اور سلام کہہ کر بیٹھ گئے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابن زبیر! اس نماز کی کیا حقیقت ہے، جس کے پڑھنے کا آپ لوگوں کو حکم دیتے ہیں؟ ہم نے تو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا کوئی حکم دیا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے گھر میں ان کے پاس یہ نماز پڑھی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے مجھے اور ایک اور آدمی کو حکم دیا کہ ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاکر ان سے اس کے بارے میں دریافت کریں، پس میں سیدہ کے پاس پہنچا اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان کے حوالے جو بات سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کر رہے تھے، وہ ان کو بتادی، ، وہ کہنے لگیں: ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے یاد نہیں رکھا، میں نے تو انہیںیہ بیان کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کے بعد میرے پاس دو رکعت نماز پڑھی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ آج آپ نے یہ دو رکعتیں پڑھی ہیں، پہلے تو نہیں پڑھتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس کوئی مال لایا گیا تھا اور میں اسے تقسیم کرنے کی وجہ سے ظہر کے بعد والی دو رکعتوں سے مشغول ہو گیا،اتنے میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ میرے پاس آ گئے اور انہوں نے نماز عصر کے لئے مجھے بلالیا، اس وقت میں نے ناپسند سمجھا کہ ان دو رکعتوں کیوجہ سے لوگوں کو روک لوں، اس لیے اب میں نے وہ دو رکعتیں ادا کی ہیں۔ میں نے واپس آکر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ساری بات بتائی، لیکن سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دو رکعتیں پڑھی ہیں، لہٰذا میں تو ان کو نہیں چھوڑوں گا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے کہنے لگے: آپ ہمیشہمخالف ہی رہتے ہیں، جب تک آپ زندہ ہیں، آپ مخالفت کو ہی پسند کرتے رہیں گے۔
زوجۂ رسول سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عصر سے پہلے والے دو رکعتیں رہ گئیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو عصر کے بعد پڑھا تھا۔
عبد اللہ بن حارث کہتے ہیں: سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز پڑھائی اور زوجۂ رسول سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی طرف (ایک آدمی) بھیجا اورپھر اس کے پیچھے ایک اور آدمی بھی بھیج دیا،میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک لشکر تیار کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سواریاں نہیںتھیں، لیکن اسی اثنا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس صدقے کی سواریاں لائی گئیں، آپ انہیں صحابہ میں تقسیم کرنے لگے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روک دیا، حتیٰ کہ عصر کا وقت ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر سے پہلے دو یا اس سے زائد رکعتیں، جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتیں، پڑھتے تھے، (اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ رکعتیں ادا نہ کر سکے تھے) اس لیے جب عصر پڑھ کر واپس آئے تو وہ پہلے والی نماز ادا کی، اصل بات یہ تھی کہ جب آپ کوئی نماز پڑھتے یا کوئی کام کرتے تو اس پر ہمیشگی کرنا پسند فرماتے تھے۔