مسنداحمد

Musnad Ahmad

رات کی نماز اور وتر کے ابواب

وتر کی فضیلت، تاکید اور حکم کا بیان

۔ (۲۱۶۸) عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَاأَھْلَ الْقُرْآنِ! أَوْتِرُوْا فإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ۔)) (مسند احمد: ۸۷۷)

سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو، یقینا اللہ تعالیٰ وتر (طاق) ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔

۔ (۲۱۶۸) عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَاأَھْلَ الْقُرْآنِ! أَوْتِرُوْا فإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ۔)) (مسند احمد: ۸۷۷)

سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے)

۔ (۲۱۷۰) عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلُہُ۔ (مسند احمد: ۷۴۹۳)

سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اسی طرح کی ایک حدیث بیان کی ہے۔

۔ (۲۱۷۱) وَعَنْہُ أَیْضًا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ لَمْ یُوْتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا۔)) (مسند احمد: ۹۷۱۵)

سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو وتر نہیں پڑھتا، وہ ہم سے نہیں ہے۔

۔ (۲۱۷۲) عَنْ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوْتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا۔)) قَالَھَا ثَلَاثًا۔ (مسند احمد: ۲۳۴۰۷)

سیدنابریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار فرمایا: وتر حق ہے، جو وتر نہیں پڑھتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

۔ (۲۱۷۳) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ أَنَّ ابْنَ مُحَیْرِیْزٍ الْقُرَشِیَّ ثُمَّ الْجُمَحِیَّ أَخْبَرَہُ وَکَانَ بِالشَّامِ وَکَانَ قَدْ أَدْرَکَ مُعَاوِیَۃَ، فَأَخْبَرَہُ أَنَّ الْمُخْدِجِیَّ رَجُلاً مِنْ بَنِی کِنَانَۃَ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْأَ نْصَارِ کَانَ بِالشَّامِ یُکَنّٰی أَبَا مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَہُ أَنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ، فَذَکَرَ الْمُخْدِجِیُّ أَنَّہُ رَاحَ إِلَی عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَذَکَرَلَہَ أَنَّ أَبَا مُحَمَّدٍ یَقُوْلُ: اَلْوِتْرُ وَاجِبٌ، فَقَالَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: کَذَبَ أَبُوْ مُحَمَّدٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((خَمْسُ صَلَواتٍ کَتَبَہُنَّ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلَی الْعِبَادِ مَنْ أَتٰی بِہِنَّ، لَمْ یُضَیِّعْ مِنْھُنَّ شَیْئًا اِسْتِخْفَافًا بِحَقِّہِنَّ کَانَ لَہُ عِنْدَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی عَھْدٌ أَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ، وَمَنْ لَمْ یَأْتِ بِہِنَّ فَلَیْسَ لَہُ عِنْدَ اللّٰہِ عَہْدٌ، اِنْ شَائَ عَذَّبَہُ وَإِنْ شَائَ غَفَرَلَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۰۶۹)

ابن محیریز جمحی شام میں تھے، انھوں نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی پایا تھا، انھوںنے بتایا کہ بنوکنانہ کے مخدجی آدمی نے بتلایا کہ شام میں سکونت پذیر ایک انصاری آدمی ابو محمد نے کہا کہ وتر واجب ہے، یہ سن کر مخدجی، سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پہنچا اور ان کو بتایا کہ ابو محمدانصاری کہہ رہا ہے کہ وتر واجب ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ابو محمد نے جھوٹ بولا ہے، میں نے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: پانچ نمازیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے بندوں پر فرض کیا ہے، جس نے ان کو ادا کیا اور کسی کے حق کو کمزور سمجھتے ہوئے ان میں سے کسی نماز کو ضائع نہیں کیا، تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لئے یہ عہد ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، لیکن جس نے ان کو ادا نہ کیا تو اس کے لئے اللہ کے ہاں کوئی عہد نہیں ہے، اگر اس نے چاہا تو اسے عذاب دے گا اور چاہا تو بخش دے گا۔

۔ (۲۱۷۴) عَنْ نَافِعٍ سَأَلَ رَجُلٌ اِبْنَ عُمَرَ عَنِ الْوِتْرِ أَوَاجِبٌ ھُوَ؟ فَقَالَ: أَوْتَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُسْلِمُوْنَ۔ (مسند احمد: ۵۲۱۶)

جنابِ نافع کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے وتر کے بارے میں سوال کیا کہ کیایہ نماز واجب ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اور مسلمانوں نے نمازِ وتر پڑھی ہے۔

۔ (۲۱۷۵) (وَمِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ) قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عُمَرَ: أَرَأَیْتَ الْوِتْرَ أَسُنَّۃٌ ھُوَ؟ قَالَ: مَاسُنَّۃٌ؟ أَوْتَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَوْتَرَ الْمُسْلِمُونَ، قَالَ: لَا، أَسُنَّۃٌ ھَُو؟ قَالَ: مَہْ، أَتَعْقِلُ؟ أَوْتَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَوْتَرَ الْمُسْلِمُونَ۔ (مسند احمد: ۴۸۳۴)

۔ (دوسری سند)ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: وتر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ سنت ہے؟ انہوں نے کہا: سنت کیا ہوتی ہے؟ بات یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز وتر پڑھی ہے اور مسلمانوں نے بھییہ نماز پڑھی ہے۔ اس نے کہا: نہیں، نہیں، میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیاوہ سنت ہے؟ انہوں نے فرمایا: ٹھہر جا ذرا، کیا تیری عقل کام کرتی ہے؟ میں کہہ رہا ہوں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نمازِ وتر پڑھی ہے اور مسلمانوں نے بھی ہے، (لہٰذا ہمیں پڑھنی چاہیے)۔

۔ (۲۱۷۶) عَنْ عَبْدِ الرَّحَمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوْخِیِّ قَاضِیْ إِفْرِیْقِیَۃَ أَنَّ مُعَاذَ ابْنَ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَدِمَ الشَّامَ وَأَھْلُ الشَّامِ لَایُوْتِرُوْنَ، فَقَالَ لِمُعَاوِیَۃَ: مَا لِی أَرٰی أَھْلَ الشَّامِ لَایُوتِرُونَ؟ فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ: وَوَاجِبٌ ذَالِکَ عَلَیْہِمْ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((زَادَنِیْ رَبِّی عَزَّوَجَلَّ صَلَاۃً وَھِیَ اَلْوِتْرُ، وَوَقُتْہَا مَا بَیْنَ الْعِشَائِ إِلٰی طُلُوْعِ الْفَجْرِ)) (مسند احمد: ۲۲۴۴۶)

قاضی افریقہ عبد الرحمن بن رافع تنوخی سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شام میں آئے، جبکہ اہل شام وتر نہیں پڑھتے تھے، انہوں نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا وجہ ہے کہ اہل شام وتر نہیں پڑھتے؟ انھوں نے کہا: کیایہ نماز ان پر ضروری ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے رب نے مجھے ایک اور نماز دی ہے اوروہ وتر ہے اور اس کا وقت عشاء سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک ہے۔

۔ (۲۱۷۷) عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَلْوِتْرُ لَیْسَ بِحَتْمٍ کَالصَّلَاۃِ وَلٰکِنَّہُ سُنَّۃٌ سَنَّہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۷۶۱)

سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: وتر کی نماز فرضی نمازوں کی طرح حتمی نہیںہے، بلکہ یہ سنت ہے، جسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسنون قرار دیا ہے۔