سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی سیدہ زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو فرمایا: جب تم میں سے کوئی عشاء کے لیے جائے تو وہ خوشبو نہ لگائے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھتی تھی، جب وہ واپس جاتیں تو اپنی چادروں میں اس قدر لپٹی ہوتی تھیں کہ ان کو پہچانا نہیں جا سکتا تھا۔
(دوسری سند)وہ کہتی ہیں: بے شک مؤمن عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھتیں تھیں، وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوتی تھیں، جب وہ اپنے گھروں کو لوٹتیںتو اندھیرے کی وجہ سے کوئی بھی ان کو پہچان نہیں سکتا تھا۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ چونکہ مسلمان حاجت مند تھے، اس لیے وہ اس قسم کی (چھوٹی سی) دھاری دار چادر کا ازار باندھ لیتے تھے، جو تقریبا ان کی نصف پنڈلیوں تک پہنچتی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے، وہ اس وقت تک (سجدے سے) سر نہ اٹھائے جب تک ہم مرد لوگ اپنے سر نہ اٹھا لیں، (اس حکم کی یہ وجہ تھی کہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ناپسند تھا کہ عورتوں کی نگاہ مردوں کے ازار چھوٹے ہونے کی وجہ سے ان کی شرمگاہوں پر پڑھ جائے گی۔
سیّدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مرد حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، انھوں نے بچوں کی طرح اپنے ازار گردنوں پر باندھے ہوئے ہوتے تھے، اس لیے عورتوں کو کہا جاتا کہ وہ (سجدوں سے) سروں کو نہ اٹھایا کریں، جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب عورتیں فرض نمازوں سے سلام پھیرتیں تو (واپسی کے لیے) اٹھ کھڑی ہوتیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والے مرد حضرات، جب تک اللہ چاہتا، بیٹھے رہتے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوتے تو وہ سارے کھڑے ہوجاتے تھے۔