مسنداحمد

Musnad Ahmad

امامت کا بیان،اماموں کی صفات اور ان سے متعلقہ مزید احکام

اس کا بیان کہ امامت کا زیادہ حق دار کون ہے

۔ (۲۵۳۰) عَنْ أَبِی مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِیِّ الْبَدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُھُمْ لِکِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَأَقْدَمُہُمْ قِرَائَ ۃً فَاِنْ کَانَتْ قِرَائَ تُہُمْ سَوَائً فَلْیَؤُمَّہُمْ أَقْدَمُہُمْ ھِجْرَۃً فَاِنْ کَانَتْ ھِجْرَتُھُمْ سَوَائً فَلْیَؤُمَّہُمْ أَکْبَرُھُمْ سِنًّا وَلَا یُؤَمَّ الرَّجُلُ فِی أَھْلِہِ وَلَا فِی سُلْطَانِہِ وَلَا یُجْلَسْ عَلٰی تَکْرِمَتِہِ فِی بَیْتِہِ اِلَّا بِاِذْنِہِ)) (مسند احمد: ۱۷۲۲۷)

ابومسعود انصاری بدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قوم کی امامت وہ آدمی کروائے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب زیادہ پڑھا ہوا ہو، اگر وہ قراء ت میں برابر ہوں، تو وہ شخص امامت کروائے جو ہجرت میں مقدم ہو، اگر وہ ہجرت میں برابر ہو ں تو وہ امامت کرائے جو عمر میں بڑا ہو، اور آدمی کے گھر میں اور اس کے اقتدار میں اس کی امامت نہ کروائی جائے اور اس کے گھر میں اس کی عزت والی جگہ میں نہ بیٹھا جائے، مگر اس کی اجازت کے ساتھ۔

۔ (۲۵۳۲)(وَفِیْہِ أَیْضًا) وَلَا تَجْلِسْ عَلٰی تَکْرِمَتِہِ فِی بَیْتِہِ حَتّٰی یَأْذَنَ لَکَ ۔ (مسند احمد: ۱۷۲۲۷)

( اور اس کے الفاظ یہ ہیں:) اور تو اس کے گھر میں اس کی عزت والی جگہ میں نہ بیٹھ، الا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔

۔ (۲۵۳۴) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُھُمْ لِلْقُرْآنِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۶۹۴)

سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قوم کی امامت وہ شخص کرائے گا، جو ان میں قرآن کو زیادہ پڑھنے والا ہو گا۔

۔ (۲۵۳۵) عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلِمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَتْ تَأْتِیْنَا الرُّکْبَانُ مِنْ قِبْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَسْتَقْرِئُہُمْ فَیُحَدِّثُوْنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لِیَؤُمَّکُمْ أَکْثَرُکُمْ قُرْآنًا۔)) (مسند احمد: ۲۰۹۶۳)

سیّدنا عمرو بن سلمۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے ہمارے پاس قافلے آتے تھے، پس ہم ان سے پڑھتے تھے، انھوں نے ہمیں یہ بھی بیان کیا کہ رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہاری امامت وہ کرائے تو تم میں قرآن مجید کو زیادہ پڑھنے والا ہو۔

۔ (۲۵۳۶) حدثنا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِی ثَنَا سُرَیْجٌ وَیُوْنُسُ قَالَا ثَنَا حَمَّادٌ یَعْنِی ابْنَ زَیْدٍ عَنْ أَبِی قِلَابَۃَ عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ اللَّیْثِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَدِمْنَا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَحْنُ شَبَبَۃٌ، قَالَ: فَأَقَمْنَا عِنْدَہُ نَحْوًا مِنْ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً، فَقَالَ لَنَا: ((لَوْ رَجَعْتُمْ اِلَی بِلَادِکُمْ)) وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَحِیْمًا ((فَعَلَّمْتُمُوْھُمْ۔)) قَالَ سُرَیْجٌ وَأَمَرْتُمُوْھُمْ أَنْ یُصَلُّوْا صَلَاۃَ کَذَا حِیْنَ کَذَا قَالَ یُوْنُسُ وَمُرُوْھُمْ فَلْیُصَلُّوْا صَلَاۃَ کَذَا فِی حِیْنِ کَذَا وَصَلَاۃَ کَذَا فِی حِیْنِ کَذَا، فَاِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ فَلْیُؤَذِّنْ لَکُمْ أَحَدُکُمْ وَلْیَؤُمَّکُمْ أَکْبَرُکُمْ۔ (مسند احمد: ۲۰۸۰۳)

سیّدنا مالک بن حویرث سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نوجوان لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور تقریبا بیس راتیں قیام کیا، چونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رحم دل تھے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں فرمایا: اگر تم اپنے شہروں کی طرف لوٹ جائو اور ان کو تعلیم دو اور انھیں حکم دو کہ وہ فلاں فلاں نماز فلاں فلاں وقت میں پڑھیں، جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان کہے اور وہ آدمی تمہاری امامت کرائے، جو تم میں بڑا ہو۔

۔ (۲۵۳۷، ۲۵۳۸)(وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ أَبِی قِلَابَۃً عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَہُ وَلِصَاحِبٍ لَہُ: ((اِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ فَأَذِّنَا وَأَقِیْمَا وَقَالَ مَرَّۃً فَأَقِیْمَا ثُمَّ لِیَؤُمَّکُمَا أَکْبَرُ کُمَا۔)) قَالَ خَالِدٌ: فَقُلْتَ لِأَبِی قِلَابَۃَ: فَأَیْنَ الْقِرَائَۃُ؟ قَالَ: اِنَّہُمَا کَانَا مُتَقَارِبَیْنِ۔ (زَادَ فِی رِوَایَۃٍ:) ((صَلُّوا کَمَا تَرَوْنِی أُصَلِّی)) (مسند احمد: ۱۵۶۸۶)

(دوسری سند )سیّدنا مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اور اس کے ساتھی کو فرمایا: جب نماز کا وقت آجائے، تو تم اذان دینا، پھراقامت کہنا اور جو تم میں بڑا ہے، وہ جماعت کروائے گا۔ خالد کہتے ہیں: میں نے ابوقلابہ سے کہا: قراء ت (کی بنا پر امام بنانے کا)مسئلہ کہاں گیاَ انہوں نے کہا: بیشک وہ دونوں (قراء ت اور باقی علم میں) قریب قریب تھے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: نماز اس طرح پڑھنا، جس طرح تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

۔ (۲۵۳۷، ۲۵۳۸)(وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ أَبِی قِلَابَۃً عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَہُ وَلِصَاحِبٍ لَہُ: ((اِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ فَأَذِّنَا وَأَقِیْمَا وَقَالَ مَرَّۃً فَأَقِیْمَا ثُمَّ لِیَؤُمَّکُمَا أَکْبَرُ کُمَا۔)) قَالَ خَالِدٌ: فَقُلْتَ لِأَبِی قِلَابَۃَ: فَأَیْنَ الْقِرَائَۃُ؟ قَالَ: اِنَّہُمَا کَانَا مُتَقَارِبَیْنِ۔ (زَادَ فِی رِوَایَۃٍ:) ((صَلُّوا کَمَا تَرَوْنِی أُصَلِّی)) (مسند احمد: ۱۵۶۸۶)

(دوسری سند )سیّدنا مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اور اس کے ساتھی کو فرمایا: جب نماز کا وقت آجائے، تو تم اذان دینا، پھراقامت کہنا اور جو تم میں بڑا ہے، وہ جماعت کروائے گا۔ خالد کہتے ہیں: میں نے ابوقلابہ سے کہا: قراء ت (کی بنا پر امام بنانے کا)مسئلہ کہاں گیاَ انہوں نے کہا: بیشک وہ دونوں (قراء ت اور باقی علم میں) قریب قریب تھے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: نماز اس طرح پڑھنا، جس طرح تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

۔ (۲۵۳۹) عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ أَتٰی أَبَا مُوْسَی الْأَشْعَرِیَّ فِی مَنْزِلِہِ فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ، فَقَالَ أَبُوْ مُوْسَی: تَقَدَّمْ یَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ! فَاِنَّکَ أَقْدَمُ سِنًّا وَأَعْلَمُ، قَالَ: لَا، بَلْ تَقَدَّمْ أَنْتَ فَاِنَّمَا أَتَیْنَاکَ فِی مَنْزِلِکَ وَمَسْجِدِکَ فَأَنْتَ أَحَقُّ، قَالَ: فَتَقَدَّمَ أَبُوْ مُوْسٰی فَخَلَعَ نَعْلَیْہِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: مَا أَرَدْتَّ اِلَی خَلْعِہِمَا؟ أَبِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ أَنْتَ؟ لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی فِی الْخُفَّیْنِ وَالنَّعْلَیْنِ۔ (مسند احمد: ۴۳۹۷)

سیّدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں سیّدنا ابوموسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ان کے گھر گیا، اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا، انھوں نے مجھے کہا: ابوعبد الرحمن! آگے بڑھو(اور نماز پڑھاؤ)کیونکہ تم زیادہ عمر والے اور زیادہ علم والے ہو، لیکن میں نے کہا: نہیں، بلکہ آپ خود آگے بڑھیں، کیونکہ ہم آپ کے پاس، آپ کے گھر اور آپ کی مسجد میں آئے ہیں، اس لیے آپ زیادہ حقدار ہیں، پس سیّدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگے بڑھے اور انھوں نے اپنے جوتے اتار دیئے، جب انھوں نے سلام پھیرا تو میں نے کہا: آپ نے جوتے کیوں اتارے ہیں؟ کیا آپ وادیٔ مقدس میں ہیں،میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ موزے اور جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے۔

۔ (۲۵۴۰) عَنْ بُدَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ الْعُقَیْلِیِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْہُمْ یُکْنَی أَبَا عَطِیَّۃَ قَالَ: کَانَ مَالِکُ بْنُ الْحُوَیْرِثِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَأْتِیْنَا فِی مُصَلَّانَا یَتَحَدَّثُ، قَالَ: فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ یَوْمًا فَقُلْنَا: تَقَدَّمْ، فَقَالَ: لَا، لِیَتَقَدَّمْ بَعْضُکُمْ حَتّٰی أُحَدِّثَکُمْ لِمَ لَا أَتَقَدَّمُ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَـلَا یَؤُمَّہُمْ، وَلْیَؤُمَّہُمْ رَجُلٌ مِنْہُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۰۶)

ابوعطیہ کہتے ہیں: سیّدنا مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے پاس ہماری جائے نمازمیں آتے تھے اور باتیں کرتے تھے، ایک دن نماز کا وقت ہوگیا، ہم نے ان سے کہا: آگے بڑھو اور ( نماز پڑھاؤ)، لیکن انھوں نے کہا: نہیں، تمہارا اپنا کوئی آدمی آگے بڑھے، میں تم کو بیان کرتا ہوں کہ میں آگے کیوں نہیں بڑھ رہا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا: جو آدمی دوسروں کی ملاقات اور زیارت کرنے کے لیے ان کے پاس آئے، وہ ان کو امامت نہ کرائے، بلکہ ان کا اپنا کوئی آدمی جماعت کرائے۔