۔ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سحری کھایا کرو، بیشک سحری کے کھانے میں برکت ہے۔
۔ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سحری اور ثرید میں برکت کی دعا فرمائی ہے۔
۔ ایک صحابی رسول سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس وقت گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری کاکھانا کھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ برکت والا کھانا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے، پس اس کو نہ چھوڑو۔
۔ سیدناعرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہِ رمضان میں مجھے سحری کی دعوت دی اور فرمایا: اس بابرکت کھانے کی طرف آؤ۔
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سحری کا کھانا بابرکت ہے، اس لیے اس کو نہ چھوڑا کرو، خواہ پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت کرتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے رحمت کے نزول کی دعا کرتے ہیں۔
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کا روزہ رکھنے کا ارادہ ہو تو وہ کسی نہ کسی چیز کے ساتھ سحری کیا کرے۔
۔ ابوقیس بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مسلسل روزے رکھا کرتے تھے، وہ شام کو رات کے ابتدائی حصہ میں کھانا کم ہی کھاتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ زیادہ تر سحری ہی کرتے تھے، میں نے ان سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری کرنا ہے۔
۔ سیدنا عدی بن حاتم طائی کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نماز اور روزہ کی تعلیم دی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فلاں فلاں نماز پڑھا کرو اور (اس طرح) روزے رکھا کرو، جب سورج غروب ہو جائے تو (ساری رات) کھاپی سکتے ہو، یہاں تک کہ سفید دھاگہ، سیاہ دھاگے سے ممتاز ہو جائے اور (رمضان کے) پورے تیس روزے رکھا کرو، الّا یہ کہ چاند اس سے پہلے نظرآجائے۔ پس میں نے ایک سیاہ اور ایک سفید دھاگہ لیا اور(سحری کے وقت) ان کی طرف دیکھنے لگا، لیکن وہ میرے لیے واضح نہیں ہو رہے تھے، اس لیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات بتلائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر مسکرا پڑے اور فرمایا: سفید دھاگے سے مراد (طلوع فجر کے وقت) دن کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ممتاز ہونا ہے۔
۔ سیدناابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا : میں آج رات آپ کے ہاں بسر کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں رات کی نماز پڑھ سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میرے والی نماز کی استطاعت نہیں رکھتے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے اور کپڑے کی اوٹ میں غسل کیا، جبکہ میرا رخ دوسری جانب تھا، پھر میں نے بھی اسی طرح کیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز شروع کر دی، (اور اتنا لمبا قیام کیا کہ) میں (تھکاوٹ یا نیند کے غلبہ کی وجہ) سے اپنا سر دیوار پر مارتا تھا،پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے لیے اذان کہی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اذان دے چکے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بلال! تم جس وقت اذان کہتے ہو اس وقت روشنی آسمان کی طرف سیدھی جا رہی ہوتی ہے اوراس وقت صبح صادق نہیں ہوتی، صبح صادق تو اس وقت ہوتی ہے کہ جب روشنی (افق کے کناروں پر) پھیلتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا منگوا کر سحری کھائی۔
۔ زربن حبیش کہتے ہیں: میں نے سحری کا کھانا کھایا اوراس کے بعد مسجد کی طرف چل دیا، میرا گزر سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس سے ہوا، میں ان کے ہاں چلا گیا، انہوں نے حال میں ہی بچہ جنم دینے والی ایک اونٹنی کا دودھ دوہنے اور ہنڈیا کو گرم کرنے کا حکم دیا اور مجھ سے کہا: قریب آئو اور کھانا کھائو۔ میں نے کہا: میں آج روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: میں بھی روزہ رکھنا چاہتا ہوں، سو ہم نے کھانا کھایا اور دودھ پیا اور پھر ہم مسجد کی طرف چلے گئے، اتنے میں نماز کی اقامت کہہ دی گئی (اور ہم نے نماز پڑھی)، پھر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ اس کے ساتھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ ایسے ہی کیا تھا۔ دوسری روایت میں ہے: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے ساتھ ایسے ہی کیا تھا۔میں نے کہا: کیا صبح ہو جانے کے بعد؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، صبح ہو چکی تھی، بس ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔
۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا بلال رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت سحری کھا رہے ہوتے تھے، جبکہ میں اس وقت اپنے تیر کے گرنے کی جگہ کو بھی دیکھ سکتا تھا، میں (نصر) نے کہا: کیا صبح کے بعد؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، صبح کے بعد، البتہ ابھی سورج طلوع نہ ہوا ہوا تھا۔
۔ (دوسری سند) عاصم نے کہا: میں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کس وقت سحری کھائی تھی؟ انہوں نے کہا: بس دن ہو چکا تھا، البتہ سورج طلوع نہ ہوا تھا۔
۔ سیدنابلال بن رباح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جبکہ آپ کا روزہ رکھنے کا ارادہ تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیالہ منگوا کر خود بھی پیا اور مجھے بھی پلایا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور وضو کے بغیر نماز پڑھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزے کا ارادہ رکھتے تھے۔
۔ سیدناقتادہ سے روایت ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سحری کے وقت فرمایا: انس! میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، مجھے کوئی چیز کھلائو۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھجور اور پانی کا برتن لے کر حاضر ہوا، جبکہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اذان کہہ چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انس! کوئی آدمی ڈھونڈ کر لائو جو میرے ساتھ کھانا کھائے ۔ میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلا کر لایا، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں تو ستو پی چکا ہوں اور میرا روزہ رکھنے کا ارادہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں بھی روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کی، اس کے بعد نکلے اور نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی۔
۔ ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ایک آدمی روزہ رکھنا چاہتا ہے اور کوئی چیز پینے کے لیے برتن اس کے ہاتھ میں ہے، لیکن اسی وقت اذان کی آواز آ جاتی ہے (تو وہ کیا کرے)؟ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں یہ بیان کیا جاتا تھا کہ (ایسی صورت حال کے بارے میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: وہ پی لے۔
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب موذن اذان کہتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتیں ادا فرماتے اور (روزے دار کے لیے) کھانا حرام کر دیتے، اور جب تک صبحِ (صادق) طلوع نہ ہو جاتی تھی، اس وقت تک اذان نہیں دی جاتی تھی۔