مسنداحمد

Musnad Ahmad

ہدی اور قربانی کے جانوروں کے مسائل

ان جانوروں کا بیان کہ عیب کی وجہ سے جن کی قربانی نہیں کی جا سکتی اور جن کی قربانی مکروہ ہے اور جن کی مستحبّ ہے

۔ (۴۶۷۴)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا ھَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِيْ سَدُوسٍ یُقَالُ لَہُ: جُرَيُّ ابْنُ کُلَیْبٍ، عَنْ عَلِّيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَھٰی عَنْ عَضْبَائِ الأُذُنِ وَالْقُرْنِ، قَالَ: فَسَأَلْتُ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ فَقَالَ: النَّصْفُ فَمَا فَوْقَ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۷۹۱)

۔ سیدنا علی بن ابو طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کان کٹے ہوئے اور سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی کرنے سے منع فرمایا۔ قتادہ راوی کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے (عَضْبَاء کی مقدار کے بارے میں) سوال کیا، انھوں نے کہا: نصف یا اس سے ٹوٹا ہوا ہو۔

۔ (۴۶۷۵)۔ عَنْ عَلِيٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَیْنَ وَ الأذُنَ، وَ أَنْ لا نُضَحِّيَ بِعَوْرَائَ، وَلا مُقَابَلَۃٍ، وَلا مُدَابَرَۃٍ وَلا شَرْقَائَ، وَلا خَرْقَائَ (زَادَ فِي رِوَایَۃٍ وَلا جَدْعَائ)، قَالَ زُھَیْرٌ: قُلْتُ لأبِيْ إِسْحَاقَ: أَذَکَرَ عَضْبَائَ؟ قَالَ: لا، قُلْتُ: مَا الْمُقَابَلَۃُ؟ قَالَ: یُقْطَعُ طَرَفُ الأَذُنِ۔ قُلْتُ: مَا الْمُدَابَرَۃُ؟ قَالَ: یُقْطَعُ مُؤَخَّرُ الأذُنِ، قَالَ: تُخْرَقُ أُذُنُھَا لِلسِّمَۃِ۔ (مسند احمد: ۸۵۱)

۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم آنکھ اور کان کو غور سے دیکھیں اور ان جانوروں کی قربانی نہ کریں: بھینگا، سامنے سے کٹے ہوئے کان والا، پیچھے سے کٹے ہوئے کان والا، لمبائی میں پھٹے ہوئے کان والا، جس کے کان میں گول سوراخ ہو اور جس کا ناک کٹا ہوا ہو۔ زہیر کہتے ہیں: میں نے ابو اسحاق سے کہا: کیا انھوں نے عَضْبَائ کاذکر کیاتھا؟ انھوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: مُقَابَلۃ کون سا جانور ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا: جس کے کان کا ایک کنارہ کٹا ہوا ہو، میں نے کہا: مُدَابَرۃ کون سا جانور ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا: جس کا کان پیچھے سے کٹا ہوا ہو، پھر انھوں نے کہا: علامت کے طور پر جانور کا کان کاٹا جاتا تھا۔

۔ (۴۶۷۶)۔ عَنْ یَزِیْدَ ذي مِصْرٍ، قَالَ: أَتَیْتُ عُتْبَۃَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا الْوَلِیْدِ إِنِّيْ خَرَجْتُ أَلْتَمِسُ الضُّحَایَا فَلَمْ أَجِدْ شَیْئًا یُعْجِبْنُي غَیْرَ ثَرْمَائَ، فَمَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَلا جِئْتَنِيْ بِھَا، قُلْتُ: سُبْحَانَ اللّٰہ، تَجُوزُ عَنْکَ وَلا تَجُوزُ عَنِّي؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّکَ تَشُکُّ وَلا أَشُکُّ إِنَّمَا نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ المُصْفَرْۃِ وَالْمُسْتَأْصَلَۃِ قَرْنُھَا مِنْ أَصْلِھَا وَالْبَخْقَائِ وَالْمُشَیَّعَۃِ، والکَسْرَائ۔ فَالمُصْفَرَۃُ الَّتِي تُسْتَأْصَلُ أُذُنُھَا حَتّٰی یَبْدُوَ صِمَاخُھَا، وَالْمُسْتَأْصَلَۃُ الَّتي استُؤْصِلَ قَرْنُھَا مِنْ أَصْلِہِ، وَ الْبَخْقَائُ الَّتِي تُبْخَقُ عَیْنُھَا، وَ الْمُشَیَّعَۃُ الَّتِيْ لا تَتْبَعُ الْغَنَمَ عَجَفًا وَ ضَعْفًا وَ عَجْزًا، وَالْکَسْرَائُ الَّتِي لا تُنْقِي۔ (مسند احمد: ۱۷۸۰۲)

۔ یزید ذی مصر کہتے ہیں: میں سیدنا عتبہ بن عبد سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور کہا: اے ابو الولید! میں قربانی کا جانور خریدنے کے لیے نکلا تھا، لیکن کوئی ایسا نہیں جو مجھے پسند آیا ہو، البتہ سامنے والے دانت ٹوٹا ہوا ایک جانور تھا، اس کے بارے میں تم کیا کہو گے؟ انھوں نے کہا: تو اس کو میرے پاس لے کر کیوں نہیں آیا؟ میں نے کہا: سبحان اللہ، تمہاری طرف سے جائز ہے اور میرے طرف سے جائز نہیں ہے؟ انھوں نے کہا: جی بالکل، کیونکہ تو شک کرتا ہے اور میں شک نہیں کرتا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان جانوروں سے منع کیا ہے:جس کا کان اتنا کاٹ دیا جائے کہ اس کا سوراخ ظاہر ہو جائے، جس کا سارا کان کاٹ دیا جائے،بھینگی آنکھ والا، جس کی آنکھ کانی ہو گئی ہو، وہ جو کمزوری اور عجز کی وجہ سے بکریوں کے پیچھے نہ چل سکتی ہو اور وہ کہ جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو۔ (آگے ان الفاظ کے معانی بیان کیے گئے ہیں، جو ترجمہ میں واضح کر دیئے گئے ہیں)۔

۔ (۴۶۷۷)۔ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: سَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنَ فَیْرُوزٍ مَوْلٰی بَنِيْ شَیْبَانَ: أَنَّہُ سَأَلَ الْبَرَائَ عَنِ الأضَاحِيِّ مَا نَھٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ مَا کَرِہَ؟ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (أوْ قَامَ فِینَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ یَدِي أَقْصَرُ مِنْ یَدِہِ فَقَالَ): ((أَرْبَعٌ لا تُجْزِیُٔ: الْعَوْرَائُ الْبَیِّنُ عَوَرُھَا، وَالْمَرِیْضَۃُ الْبَیِّنُ مَرَضُھَا، وَ الْعَرْجَائُ الْبَیِّنُ ظَلْعُھَا، وَالْکَسِیْرُ الَّتِيْ لا تُنْقِیْ۔)) قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أَکْرَہُ أَنْ یَکُوْنَ فِي الْقَرْنِ نَقْصٌ۔أوْ قَالَ فِي الأذُنِ نَقْصٌ۔ أَوْ فِي السِّنِّ نَقْصٌ؟ قَالَ: مَا کَرِھْتَ فَدَعْہُ وَلا تُحَرِّمْہُ عَلٰی أَحَدٍ۔ (مسند احمد: ۱۸۷۰۴)

۔ عبید بن فیروز نے سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے قربانیوںکے بارے میں سوال کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس قسم کے جانوروں سے منع فرمایا اور ان کو ناپسند کیا، انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم میں کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، جبکہ میرا ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ سے چھوٹا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چار قسم کے جانور قربانی میں کفایت نہیں کرتے: (۱) بھینگا، جس کا بھینگا پن واضح ہو۔ (۲) بیماری، جس کی بیماری واضح ہو۔ (۳) لنگڑا، جس کا لنگڑا پن واضح ہو اور (۴) ایسا لاغر جانور کہ جس کی ہڈی میں گودانہ ہو۔ میں نے کہا: میں سینگ یا کان یا دانت میںبھی نقص کو ناپسند کرتا ہوں، انھوں نے کہا: جس چیز کو تو ناپسند کرتا ہے، اس کو چھوڑ دے، لیکن اس کو دوسروں کے لیے حرام نہ قرار دے۔

۔ (۴۶۷۸)۔ عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: اشْتَرَیْتُ کَبْشًا أُضَحِّي بِہِ، فَعَدَا الذَّئْبُ فَأَخَذَ الألْیَۃَ، قَالَ: فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((ضَحِّ بِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۲۹۴)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے قربانی کرنے کے لیے ایک دنبہ خریدا، لیکن بھیڑئیے نے اس پر حملہ کیا اور اس کا سرین کاٹ کر لے گیا،پھر جب میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس کی قربانی کر سکتے ہو۔

۔ (۴۶۷۹)۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ، خَیْرٌ مِنَ السَّیِّدِ مِنَ الْمَعْزِ۔)) قَالَ دَاوُدُ: السَّیِّدُ الْجَلِیْلُ۔ (مسند احمد: ۹۲۱۶)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بھیڑ نسل کا جذعہ بکری نسل کے سید سے بہتر ہے۔ داود نے کہا: سید سے مراد جلیل (اچھا بھلا جانور) ہے۔

۔ (۴۶۸۰)۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : دَمُ عَفْرَائَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ دَمِ سَوْدَاوَیْنِ۔ (مسند أحمد: ۹۳۹۳)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہلکا خاکستری رنگ کا جانور کالے رنگ کے دو جانوروں سے زیادہ پسندیدہ اور افضل ہے۔