مسنداحمد

Musnad Ahmad

ہدی اور قربانی کے جانوروں کے مسائل

لقب اور ان افراد کا بیان جن کی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کنیتیں رکھیں

۔ (۴۷۷۱)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْخُلُ عَلَیْنَا (وَفِيْ رِوَایَۃٍ یُخَالِطُنَا)، وَکَانَ لِيْ أَخٌ صَغِیْرٌ (وَفِيْ لَفْظٍ کَانَ النَّبِي ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَضَاحِکُہُ) وَکَانَ لَہُ نُغَیْرٌ یَلْعَبُ بِہِ، فَمَاتَ نُغَرُہُ الَّذِيْ کَانَ یَلْعَبُ بِہِ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ، فَرَاَہُ حَزِیْنًا فَقَالَ: ((مَا شَأْنُ أَبِيْ عُمَیْرٍ حَزِیْنًا؟)) فَقَالُوْا: مَاتَ نُغَرُہُ الَّذِيْ کَانَ یَلْعَبُ بِہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((أَبَا عُمَیْرٍ مَا فَعَلَ النُغَیْرُ؟ أَبَا عُمَیْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ؟۔)) (مسند أحمد: ۱۴۱۱۷)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لاتے تھے، میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے ساتھ ہنستے تھے، اس کا ایک منّا سا چڑیا کا بچہ تھا، وہ اس کے ساتھ کھیلتا تھا، ایک دن اس کا وہ بچہ مر گیا، جس کے ساتھ وہ کھیلتا تھا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دن تشریف لائے اور میرے بھائی کو غمزدہ دیکھ کر فرمایا: ابو عمیر کو کیا ہوا، غمزدہ نظر آ رہا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اس کا وہ چڑیا کا بچہ مر گیا ہے، جس کے ساتھ یہ کھیلتا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو عمیر! چڑیا کے منّے سے بچے نے کیا کیا؟ اے ابو عمیر! چڑیا کے منّے سے بچے نے کیا کیا؟

۔ (۴۷۷۲)۔ عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ، قَالَ: کُنْتُ أَنَا وَ عَلِيٌّ رَفِیْقَیْنِ فِيْ غَزْوَۃِ ذَاتِ الْعُشَیْرَۃِ، قَالَ: فَاضْطَجَعْنَا فِيْ صَوْرٍ مِنَ النَّحْلِ فِيْ دَقْعَائَ مِنَ التُّرَابِ، فَنِمْنَا، فَوَ اللّٰہ مَا أَھَبَّنَا إِلا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُحَرِّکُنَا بِرِجْلِہِ وَ قَدْ تَتَرَّبْنَا مِنْ تِلْکَ الدَّقْعَائِ، فَیَوْمَئِذٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَلِيٍّ: ((یَا أَبَا تُرَابٍ۔)) (مسند أحمد: ۱۸۵۱۱)

۔ سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوۂ ذات العشیرہ میں ایک دوسرے کے رفیق تھے، پس ہم چند کھجور کے درختوں کے سائے میں مٹی پر لیٹے اور سو گئے، اللہ کی قسم! ہمیں نہیں جگایا، مگر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ٹانگ سے ہمیں حرکت دی، جبکہ ہم مٹی میں لت پت ہو چکے تھے، اس دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اے ابو تراب! (مٹی والے)۔

۔ (۴۷۷۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَنَّانِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ أَنَا غُلامٌ بِبَقْلَۃٍ کُنْتُ أَجْتَنِیْھَا۔ (مسند أحمد: ۱۲۶۶۵)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ایسی سبزی کے نام کے ساتھ میری کنیت رکھی، جس کو میں چنا کرتا تھا، جبکہ میں ابھی تک ایک لڑکا تھا۔

۔ (۴۷۷۴)۔ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ (صُھَیْبٍ): أَنَّ صُھَیْبًا کَانَ یُکَنَّی أَبَا یَحْیٰی وَ یَقُوْلُ: إِنَّہُ مِنَ الْعَرَبِ وَ یُطْعِمُ الطَّعَامَ الْکَثِیْرَ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ: یَا صُھَیْبُ! مَا لَکَ تُکَنَّی أَبَا یَحْیٰی، وَ لَیْسَ لَکَ وَلَدٌ، وَ تَقُوْلُ: إِنَّکَ مِنَ الْعَرَبِ، وَ تُطْعِمُ الطَّعَامَ الْکَثِیْرَ، وَ ذٰلِکَ سَرَفٌ فِي الْمَالِ فَقَالَ صُھَیْبٌ: إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَنَّانِيْ أَبَا یَحْیٰی۔ (مسند أحمد: ۲۴۴۲۲)

۔ حمزہ بن صہیب سے مروی ہے کہ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابو یحییٰ کنیت رکھی ہوئی تھی اور وہ کہتے تھے کہ وہ عربوں میں سے ہیں اور وہ بڑی مقدار میں کھانا کھلاتے ہیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: اے صہیب! تجھے کیا ہو گیا ہے، تو نے ابو یحیی کنیت رکھی ہوئی ہے، جبکہ تیری اولاد نہیں ہے اور تو کہتا ہے کہ تو عربوں میں سے ہے اور تو بڑی مقدار میں کھانا کھلاتا ہے، یہ تو مال میں اسراف ہے؟ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بیشک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری کنیت رکھی تھی۔

۔ (۴۷۷۵)۔ عَنْ ھِشَامٍ، عَنْ أَبِیْہِ، أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ لِلنَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کُلُّ نِسَائِکَ لَھَا کُنْیَۃٌ غَیْرِيْ، فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِکْتَنِيْ أَنْتِ أُمَّ عَبْدِ اللّٰہ (وَفِيْ لَفْظٍ، قَالَ: فَتَکَنِّي بابنِکِ عَبْدِ اللّٰہِ)۔)) فَکَانَ یُقَالُ لَھَا أُمُّ عَبْدِ اللّٰہِ حَتّٰی مَاتَتْ، وَلَمْ تَلِدْ قَطُّ۔ (مسند أحمد: ۲۵۶۹۶)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے علاوہ آپ کی تمام بیویوں کی کنیتیں ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم ام عبد اللہ کی کنیت رکھ لو، ایک روایت میں ہے: تم اپنے بیٹے عبد اللہ کے نام پر کنیت رکھ لو۔ پس سیدہ کو وفات تک ام عبد اللہ کہا جاتا رہا، جبکہ ان کی اولاد نہیں ہوئی تھی۔

۔ (۴۷۷۶)۔ عَنْ أَبِيْ جَبِیْرَۃَ ابْنِ الضَّحَّاکِ الأَ نْصَارِيْ، عَنْ عُمُوْمَۃٍ لَہُ: قَدِمَ النَّبِيُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَیْسَ أَحَدٌ مِنَّا إِلاَّ لَہُ لَقَبٌ أَوْ لَقَبَانِ، قَالَ: فَکَانَ إِذَا دَعَا رَجُلاً بِلَقَبِہِ قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ ھٰذَا یَکْرَہُ ھٰذَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ {وَلا تَنَابَزُوا بِالألْقَابِ} [الحجرات: ۱۱] (مسند أحمد: ۲۳۶۱۵)

۔ ابو جبیرہ بن ضحاک انصاری اپنے چچوں سے بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے ایک دو دو لقب تھے، پس جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی آدمی کو اس کے لقب کے ساتھ پکارتے تو ہم کہتے: اے اللہ کے رسول! وہ آدمی اس لقب کو ناپسند کرتا ہے، پھر اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {وَلا تَنَابَزُوا بِالألْقَابِ} … اور کسی کو برے لقب نہ دو (سورۂ حجرات: ۱۱)