مسنداحمد

Musnad Ahmad

قسم اور نذر کے مسائل

اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں کسی اسم یا صفت کی قسم اٹھانے والے کا بیان

۔ (۵۳۰۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((وَاللّٰہِ! لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔)) (مسند أحمد: ۸۴۷۴)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں ایک دن میں ستر سے زائد بار اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔

۔ (۵۳۰۷)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ: کَانَتْ یَمِیْنُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَلَّتِیْ یَحْلِفُ عَلَیْھَا: ((لَا وَمُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ۔)) (مسند أحمد: ۴۷۸۸)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قسم کے الفاظ، جن پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قسم اٹھاتے تھے، وہ یہ ہوتے تھے: لَا وَمُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ (دلوں کو الٹ پلٹ کر دینے والی ذات کی قسم)۔

۔ (۵۳۰۸)۔ عَنْ أَبی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا قَامَ قُمْنَا مَعَہُ فَجَائَہُ أَعْرَابِیٌّ فَقَالَ: أَعْطِنِی یَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَقَالَ: ((لَا وَأَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ)) فَجَذَبَہُ فَخَدَشَہُ قَالَ: فَہَمُّوا بِہِ، قَالَ: ((دَعُوہُ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَعْطَاہُ، قَالَ: وَکَانَتْ یَمِینُہُ أَنْ یَقُولَ: ((لَا وَأَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ۔)) (مسند أحمد: ۷۸۵۶)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم مسجد میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہو گئے، اتنے میں ایک بدّو آیا اور اس نے کہا: اے محمد! مجھے کچھ دو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، اور میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔ اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھینچا، جس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خراش بھی آ گئی، صحابہ نے اس کے ساتھ کچھ کرنا چاہا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو کچھ عطا کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ان الفاظ میں بھی قسم ہوتی تھی: لَا وَأَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ (نہیں، اور میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں)۔

۔ (۵۳۰۹)۔ وَفِیْ حَدِیْثِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((وَالَّذِیْ لَا اِلٰہَ غَیْرُہٗ۔)) (مسند أحمد: ۲۵۹۸۹)

۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے اندر کھڑے ہوئے اورفرمایا: اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں!

۔ (۵۳۱۰)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: َقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ وَلاَ یَھُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ، وَمَاتَ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِی اُرْسِلْتُ بِہِ، اِلاَّ کَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ۔ )) (مسند أحمد: ۸۱۸۸)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو شخص بھی میرے بارے میں سنے گا، وہ اس امت سے ہو، یا یہودی ہو، یا عیسائی ہو، اور پھر وہ اس حال میں مر جائے کہ میری لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنمی لوگوں میں سے ہو گا۔

۔ (۵۳۱۱)۔ (وَعَنْہٗ اَیْضًا مِنْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ فِیْ قِصَّۃٍ آخَرَ رَجُلٌ یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ قَالَ: وَیَبْقَی رَجُلٌ یُقْبِلُ بِوَجْہِہِ إِلَی النَّارِ فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ قَدْ قَشَبَنِی رِیحُہَا وَأَحْرَقَنِی ذَکَاؤُہَا، فَاصْرِفْ وَجْہِی عَنِ النَّارِ، فَلَا یَزَالُ یَدْعُو اللّٰہَ حَتّٰی یَقُولَ: فَلَعَلِّی إِنْ أَعْطَیْتُکَ ذٰلِکَ أَنْ تَسْأَلَنِی غَیْرَہُ، فَیَقُولُ: لَا وَعِزَّتِکَ لَا أَسْأَلُکَ غَیْرَہُ، الحدیث۔ (مسند أحمد: ۱۰۹۱۹)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بھی یہ مروی ہے، یہ ایک طویل حدیث ہے، جس میں جہنم سے نکلنے والے آخری شخص کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک آدمی باقی رہ جائے گا، جب وہ اپنا چہرہ آگ کی طرف کرے گاتو کہے گا: اے میرے ربّ! آگ کی مکروہ ہوا نے مجھے تکلیف دی ہے اور اس کے بھڑکنے نے مجھے جلا دیا ہے، پس تو میرا چہرہ اس سے پھیر دے، پس وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کہے گا: ممکن ہے کہ اگر میں تجھے یہ چیز عطا کر دوں تو تو مجھ سے کسی اور چیز کا سوال شروع کر دے؟ وہ کہے گا: نہیں، تیری عزت کی قسم! میں اس کے علاوہ تجھ سے کوئی سوال نہیں کروں گا…۔

۔ (۵۳۱۲)۔ وَجَائَ فِیْ حَدِیْثِ الْاِفْکِ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَامَ فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اُبَیٍّ فَقَامَ اُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا: لَعَمْرُاللّٰہِ لَنَقْتُلَنَّہٗ، اَلْحَدِیْثَ۔ (مسند أحمد: ۲۶۱۴۱)

۔ طویل حدیث الافک میں مذکور ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہوئے اور عبد اللہ بن ابی ّ کے سلسلے میں عذر خواہی کی، لیکن سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور انھوں نے سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اللہ کی عمر کی قسم! ہم ضرور ضرور اس کو قتل کریں گے، …۔

۔ (۵۳۱۳)۔ عَنْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمَّرَ أُسَامَۃَ عَلٰی قَوْمٍ فَطَعَنَ النَّاسُ فِی إِمَارَتِہِ فَقَالَ: ((إِنْ تَطْعَنُوا فِی إِمَارَتِہِ فَقَدْ طَعَنْتُمْ فِی إِمَارَۃِ أَبِیہِ، وَایْمُ اللّٰہِ إِنْ کَانَ لَخَلِیقًا لِلْاِمَارَۃِ۔)) الحدیث۔ (مسند أحمد: ۴۷۰۱)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کچھ لوگوں کا امیر بنایا، لیکن جب لوگوں نے اس کی امارت پر نقد کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم اس کی امارت میں طعن کرتے ہو تو تم نے اس کے باپ کی امارت میں بھی طعن کی ہو گی، اللہ کی قسم ہے، بیشک امارت کے لائق ہے۔