۔ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درہموں کی نقدی کے عوض یا پیداوار کے تہائی اورچوتھائی حصے پربدلے زمین کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔
۔ سیدنا رافع کے غلام ابونجاشی کہتے ہیں: میںنے سیدنا رافع رضی اللہ عنہ سے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میںسوال کیا اور کہا: میری زمین ہے، کیا میں اسے کرائے پر دے سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا: اس کو کسی چیز کے عوض کرانے پر نہ دینا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس کی زمین ہو تو وہ اسے خود کاشت کرے، اگر خود کاشت نہیں کرتا تو اپنے کسی بھائی کاشت کرنے کے لیے دے دے اور اگر وہ اس طرح بھی نہیں کرتا تو اس کو ویسے ہی چھوڑ دے۔ میں نے کہا: جییہ بتائیں کہ اگر میں اپنی زمین کو کاشت کے بغیر چھوڑ دیتا ہے، لیکن اگر میرا کوئی بھائی اس کو کاشت کرتا ہے اور میری طرف کچھ چارہ بھیج دیتا ہے (تو اس میں کیا حرج ہے)؟ انھوں نے کہا: تو اس سے کچھ بھی نہ لے اور نہ چارہ۔ میں نے کہا: جی میں اس سے کوئی شرط نہیں لگاتا، بس وہ میری طرف کوئی چیز بطورِ ہدیہ بھیج دیتا ہے؟ انھوں نے کہا: اس سے کچھ بھی نہ لے۔
۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں زمین بٹائی پر دیتے تھے اور بسا اوقات غلہ گاہنے کے بعد خوشوں میں رہ جانے والے وہ دانے ہمیں ملتے تھے،جو گاہنے سے الگ نہ ہو سکے ہوں،اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو، وہ اس کو خود کاشت کرےیاپھر کسی بھائی کو برائے کاشت دے دے، وگرنہ اس کو ویسے ہی چھوڑدے۔
۔ رافع کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے ہو کر آئے اور کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع فرمایاہے کہ وہ کام ہمارے لئے بہتری والاتھا، بہرحال اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمانبرداری ہمارے لئے سب سے زیادہنفع بخش ہے، تفصیلیہ ہے کہ اگر زمین کسی کی ملکیت ہے یا کسی کا عطیہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں بٹائی پر کام کرنے سے منع فرما دیا ہے۔
۔ اسید بن ظہیر کہتے ہیں ہم ضرورت سے زائد زمین پیداوار کے تہائی، چوتھائی اور نصف حصے پر بٹائی پر دے دیا کرتے تھے اور تین تین نالیوں، غلہ گاہنے کے بعد خوشوں میں رہ جانے والے دانوں اور چھوٹی نہروں سے سیراب ہونے والی زمین کی شرط لگا لیتے تھے، جبکہ اس وقت گزران میں بڑی تنگی ہوتی تھی، پھر وہ لوگ لوہے کے آلات وغیرہ سے زراعت کرتے تھے اور ہمیں بھی نفع مل جاتا تھا لیکن ہوا یوں کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اورکہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں ایک ایسے کام سے روک دیا ہے، جو کہ تمہارے لئے نفع بخش تھا، بہرحال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہر چیز کی بہ نسبت زیادہ فائدہ مندہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں بٹائی پر کھیتی باڑی کرنے سے منع کر دیا ہے اور فرمایاہے: جس کے پاس زائدزمین ہو، وہ اسے اپنے بھائی کو بلاعوض عاریۃ دے دے یا پھر اس کو خالی پڑا رہنے دے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیںمزابنہ سے بھی منع کر دیا ہے اور مزابنہ یہ ہے کہ ایک آدمی کے پاس کھجورکے درختوں پر لگا ہوا بہت زیادہ مال ہو اور اس کے پاس دوسرا آدمی آئے اور کہے: میں تجھے کھجوروں کے اتنے وسق دے کر یہ کھجوریں خریدتا ہوں۔
۔ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزارعت یعنی پیداوار کے تہائی اورچوتھائی حصہ پر زمین بٹائی پر دینے سے منع کیا ہے۔
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو، وہ خود اس کو کاشت کرے، اگر اس کو کاشت کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اور اس سے عاجز آ گیا ہو تو وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو عطیہ کے طور پر دے دے اور اس کو کرائے پر نہ دے۔
۔ (دوسری سند) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بعض لوگوں کے پاس زائد زمینیں ہوتی تھیں، وہ ان کو تہائی ،چوتھائی اور نصف حصے کے عوض اجرت پر دے دیتے تھے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو، وہ خود اس کو کاشت کرے یاپھر اپنے کسی بھائی کو بطور عطیہ دے دے، اگر وہ ایسا کام نہ کرنا چاہے تو پھر اپنی زمین کو اپنے پاس رکھے۔
۔ (تیسری سند) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زائد زمینیاپانی ہو تو اسے خود کاشت کرے یا اپنے کسی بھائی کو دے دے اور اس کو فروخت نہ کرے۔ سلیم بن حیان کہتے ہیں: میں نے سعید سے پوچھا کہ فروخت نہ کرنے کامطلب کرائے پر دینا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔
۔ امام نافع سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے معلوم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میںچھوٹی نہروں کے پاس اگنے والی فصل اور چارے کے کچھ مقدار کے عوض زمینوں کو کرائے پر دیا جاتا تھا، میںیہ نہیں جانتا کہ چارے کی مقدار کتنی ہوتی تھی۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سیدنا ابو بکر ، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان کے زمانوں میں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد کے شروع میں اپنی زمین کو کرائے پر دیا کرتے تھے۔ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا آخر دور جاری تھا کہ انہیںیہ بات موصول ہوئی کہ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین کو اس طرح کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، پس وہ ان کے پاس آئے، جبکہ میں نافع بھی ان کے ساتھ تھا اور اُن سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، پس اس کے بعد سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کام ترک کردیا اور کرائے پر زمین دینے کو چھوڑ دیا، پھر جب ان سے اس بارے میں پوچھا کیا جاتا تھا تو وہ کہتے ہیں: سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کاخیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: اے ابن خدیج! تم زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا بیان کرتے ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے اپنے دوچچو ں سے سنا ، وہ اپنے گھر والوں کو یہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔
۔ سیدنا رافع ابن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں زمین کو تہائی اور چوتھائی پیداوار اور معین غلے کے عوض کرائے پر دیا کرتے تھے، میرے ایک چچا ہمارے ہاں آئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع کر دیا ہے، جو ہمارے لئے سود مند تھا، بہرحال اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لئے زیادہ مفید ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں زمین کو تہائی اور چوتھائی پیداواریا غلے کی معین مقدار کے عوض کرائے پر دینے سے منع فرما دیا ہے اور زمین کے مالکوں کو حکم دیا ہے کہ وہ خود کاشت کریںیا کسی کو کاشت کرنے کے لیے دے دیں ، اس کے علاوہ باقی صورتوں کو ناپسند کیا ہے۔
۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں مخابرہ سے منع فرمایا ہے، میں نے کہا: مخابرہ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: زمین کو نصف یا تہائییاچوتھائی پیدوار کے عوض کرائے پر دینا۔
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم مخابرہ کیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے اس خیال کا اظہار کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، پھر ہم نے اس کو ترک ہی کردیا۔