Narrated Al-Bara bin 'Azib: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: No two Muslims meet each other and shake hands, except that Allah forgives them before they part.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور ( سلام ) و مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا ہونے سے پہلے انہیں بخش دیا جاتا ہے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث براء سے متعدد سندوں سے بھی مروی ہے۔
Narrated Anas bin Malik: that a man said: O Messenger of Allah! When a man among us meets his brother or his friend should he bow to him? He said: No. The man continued: Should he embrace him and kiss him? He said: No. He said: Should he take his hand and shake it? He said: Yes.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، اس نے پوچھا: کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، اس نے کہا: پھر تو وہ اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے، آپ نے فرمایا: ”ہاں“ ( بس اتنا ہی کافی ہے ) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
Narrated Qatadah: that he asked Anas bin Malik: Did the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ) use to shake each other's hand? He said, Yes.
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مصافحہ کا رواج تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Narrated Ibn Mas'ud: that the Prophet (ﷺ) said: taking hold of the hand is from the completeness of the greeting.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مکمل سلام ( «السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ» کہنے کے ساتھ ساتھ ) ہاتھ کو ہاتھ میں لینا یعنی ( مصافحہ کرنا ) ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن سلیم کی روایت سے جسے وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں جانتے ہیں، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسے محفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا کہ میرے نزدیک یحییٰ بن سلیم نے سفیان کی وہ روایت مراد لی ہے جسے انہوں نے منصور سے روایت کی ہے، اور منصور نے خیثمہ سے اور خیثمہ نے اس سے جس نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے سنا ہے اور ابن مسعود نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ” ( بعد نماز عشاء ) بات چیت اور قصہ گوئی نہیں کرنی چاہیئے، سوائے اس شخص کے جس کو ( ابھی کچھ دیر بعد اٹھ کر تہجد کی ) نماز پڑھنی ہے یا سفر کرنا ہے، محمد کہتے ہیں: اور منصور سے مروی ہے انہوں نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے عبدالرحمٰن بن یزید سے یا ان کے سوا کسی اور سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: سلام کی تکمیل سے مراد ہاتھ پکڑنا ( مصافحہ کرنا ) ہے، ۳- اس باب میں براء اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
Narrated Abu Umamah: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: From the complete of visiting the ill is that one of you place his hand on his forehead - or he said - on his hand, and ask him how he is. And shaking hands completes your greetings among each other.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مریض کی مکمل عیادت یہ ہے کہ تم میں سے عیادت کرنے والا اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے“، یا آپ نے یہ فرمایا: ” ( راوی کو شبہ ہو گیا ہے ) اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے، پھر اس سے پوچھے کہ وہ کیسا ہے؟ اور تمہارے سلام کی تکمیل یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: عبیداللہ بن زحر ثقہ ہیں اور علی بن یزید ضعیف ہیں، ۳ - قاسم بن عبدالرحمٰن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے اور یہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ثقہ ہیں اور قاسم شامی ہیں۔