Ibn Umar [may Allah be pleased with him] said: “The Messenger of Allah ordered burning and cutting down the date palms of Banu An-Nadir, and that (place was called Al-Buwairah. So Allah revealed: What you cut down of the Linah, or you left of them standing on their trunks, it was by the leave of Allah, and in order that He might disgrace the rebellious.”
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلا دئیے اور کاٹ ڈالے، اس جگہ کا نام بویرہ تھا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» ”جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم ( و سالم ) چھوڑ دیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا، اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے“ ( الحشر: ۵ ) ، نازل فرمائی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Hafs bin Ghiyath narrated: “Habib bin Abi Amrah narrated to us, from Sa’eed bin Jubair, from Ibn Abbas, regarding the saying of Allah, the Mighty and Sublime: What you cut down of the Linah, or you left of them standing on their trunks – he said: ‘The Linah is the date-palms.’ That He might disgrace the rebellious. He said: ‘They were forced from their forts.’ And they were ordered to cut down the date-pals, that caused some hesitation in their chests, so the Muslims said: “We cut some of them, and we left some of them, so let us ask the Messenger of Allah is we are to be rewarded for those that we cut down, and if we will be burdened for what we left?” So Allah [Most High] revealed the Ayah: What you cut down of the Linah, or you left of them standing on their trunks.”
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها» کی تفسیر میں فرماتے ہیں: «لينة» سے مراد کھجور کے درخت ہیں اور «وليخزي الفاسقين» ( تاکہ اللہ فاسقوں کو ذلیل کرے ) کے بارے میں کہتے ہیں: ان کی ذلت یہی ہے کہ مسلمانوں نے انہیں ان کے قلعوں سے نکال بھگایا اور ( مسلمانوں کو یہود کے ) کھجور کے درخت کاٹ ڈالنے کا حکم دیا گیا، تو ان کے دلوں میں یہ بات کھٹکی، مسلمانوں نے کہا: ہم نے بعض درخت کاٹ ڈالے اور بعض چھوڑ دیئے ہیں تو اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں گے کہ ہم نے جو درخت کاٹے ہیں کیا ہمیں ان کا کچھ اجر و ثواب ملے گا، اور جو درخت ہم نے نہیں کاٹے ہیں کیا ہمیں اس کا کچھ عذاب ہو گا؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها» ”تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ فاسقوں کو رسوا کرے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
Abu Hurairah narrated: That a man from the Ansar had a guest spend the night with him, but he did not have anything to eat but his meal and the meal for his children, so he said to his wife: ‘Put the children to sleep, extinguish the torches, and give me whatever you have with you for the guest.’ So this Ayah was revealed: And they give preference over themselves even though they were in need of that.”
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کے پاس رات میں ایک مہمان آیا، اس انصاری کے پاس ( اس وقت ) صرف اس کے اور اس کے بچوں بھر کا ہی کھانا تھا، اس نے اپنی بیوی سے کہا ( ایسا کرو ) بچوں کو ( کسی طرح ) سلا دو اور ( کھانا کھلانے چلو تو ) چراغ بجھا دو، اور جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ مہمان کے قریب رکھ دو، اس پر آیت «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» ”یہ خود محتاج و ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں“ ( الحشر: ۹ ) ، نازل ہوئی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔