Zaid bin Aslam said: “I was with my uncle when I heard Abdullah bin Ubayy bin Salul saying to his companions: Do not spend on those who are with the Messenger of Allah until they desert from him. If we return to Al-Madinah then the more honorable will expel the meaner among them. So I mentioned that to my uncle, then my uncle mentioned it to the Prophet. So the Prophet called for me to narrated it to him. Then the Messenger of Allah sent message to Abdullah bin Ubayy and his companions but they took an oath that they had not said it. So he did not believe me and he trusted what they said. I was struck with distress the likes of which I had not suffered before. So I just at in my house, and my uncle said to me: ‘You only wanted the Messenger of Allah to not believe you and hate you.’ Then Allah [Most High] revealed: ‘When the hypocrites come to you’ So the Messenger of Allah sent for me, and he recites it and said: ‘Indeed Allah has verified the truth of what you said.’”
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ تھا، میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو اپنے ساتھیوں سے کہتے ہوئے سنا کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، یہاں تک کہ وہ تتربتر ہو جائیں، اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا، میں نے یہ بات اپنے چچا کو بتائی تو میرے چچا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کر دیا، آپ نے مجھے بلا کر پوچھا تو میں نے آپ کو ( بھی ) بتا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا کر پوچھا، تو انہوں نے قسم کھا لی کہ ہم نے نہیں کہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا اور اسے سچا تسلیم کر لیا، اس کا مجھے اتنا رنج و ملال ہوا کہ اس جیسا صدمہ، اور رنج و ملال مجھے کبھی نہ ہوا تھا، میں ( مارے شرم و ندامت اور صدمہ کے ) اپنے گھر میں ہی بیٹھ رہا، میرے چچا نے کہا: تو نے یہی چاہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جھٹلا دیں اور تجھ پر خفا ہوں؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے «إذا جاءك المنافقون» والی سورت نازل فرمائی، تو آپ نے مجھے بلا بھیجا ( جب میں آیا تو ) آپ نے یہ سورۃ پڑھ کر سنائی، پھر فرمایا: ”اللہ نے تجھے سچا قرار دے دیا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Zaid bin Arqam said: “We were participating in a battle along with the Messenger of Allah, and there were some people from the Bedouins with us. So we all rushed toward some water and the Bedouins raced us to it. One of the Bedouins beat his companions to it and he (tried to obstruct) the pond, he placed rocks around it and he put a leather sheet over it until his companions came.” He said: “A man among the Ansar reached the Bedouin and he dropped the reigns of his camel to drink, but the Bedouin would not allow him. So he started removing the barriers around the water, but the Bedouin raised a stick beating the Ansari man on the head, and smashed it. He went to Abdullah bin Ubayy, the head of the hypocrite, to inform him – he was in fact one of his companions. So Abdullah bin Ubayy became enraged, the he said: ‘Do not spend anything on whoever is with Muhammad until they depart.’ Meaning the Bedouins. They were preparing food for the Messenger of Allah. So Abdullah said: ‘When they depart from Muhammad, then bring Muhammad some food, and let him and whoever is with him eat it.’ Then he said to his companions: ‘If we return to Al-Madinah, indeed the more honorable will expel therefrom the meaner.’” Zaid said: “And I was riding behind the Messenger of Allah, and I had heard Abdullah bin Ubayy, so I informed my uncle who went to tell the Messenger of Allah. He sent a message to him (Abdullah) but he took an oath and denied it.” He said: “So the Messenger of Allah accepted what he said and did not believe me. So my uncle came to me and said: ‘You only wanted the Messenger of Allah to hate you, and the Muslims to say that you lied.’” He said: “I suffered such worry as has not been suffered by anyone else.” He said: “(Later) while I was on the move with the Messenger of Allah on a journey, my mind was relieved of worry, since the Messenger of Allah came to me and rubbed my ear and smiled in my face. I would never be happier than with that as long as the world remained. Then Abu Bakr caught up to me, and said: ‘What did the Messenger of Allah say to you?’ I said: ‘He did not say anything to me, he only rubbed my ear and smiled in my face.’ He said: ‘Receive the good news!’ Then Umar caught up with me and I said the same to him as I had said to Abu Bakr. In the morning the Messenger of Allah recited Surat Al-Munafiqin.”
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( غزوہ بنی مصطلق میں ) جہاد کے لیے نکلے، ہمارے ساتھ کچھ اعرابی بھی تھے ( جب کہیں پانی نظر آتا ) تو ہم ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر حاصل کر لینے کی کوشش کرتے، اعرابی پانی تک پہنچنے میں ہم سے آگے بڑھ جاتے ( اس وقت ایسا ہوا ) ایک دیہاتی اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا، جب آگے نکلتا تو حوض کو بھرتا اور اس کے اردگرد پتھر رکھتا، اس پر چمڑے کی چٹائی ڈال دیتا، پھر اس کے ساتھی آتے، اسی موقع پر انصاریوں میں سے ایک اعرابی کے پاس آیا، اور اپنی اونٹنی کی مہار ڈھیلی کر دی تاکہ وہ پانی پی لے، مگر اس اعرابی شخص نے پانی پینے نہ دیا، انصاری نے باندھ توڑ دیا اعرابی نے لٹھ اٹھائی اور انصاری کے سر پر مار کر اس کا سر توڑ دیا، وہ انصاری منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس آیا، وہ اس کے ( ہم خیال ) ساتھیوں میں سے تھا، اس نے اسے واقعہ کی اطلاع دی، عبداللہ بن ابی یہ خبر سن کر بھڑک اٹھا، غصہ میں آ گیا، کہا: ان لوگوں پر تم لوگ خرچ نہ کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں جب تک کہ وہ ( یعنی اعرابی ) ہٹ نہ جائیں جب کہ ان کا معمول یہ تھا کہ کھانے کے وقت وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھا اور موجود ہوتے تھے، عبداللہ بن ابی نے کہا: جب وہ لوگ محمد کے پاس سے چلے جائیں تو محمد کے پاس کھانا لے کر آؤ تاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھ ( خاص ) موجود لوگ کھا لیں، پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اگر ہم مدینہ ( بسلامت ) پہنچ گئے تو تم میں جو عزت والے ہیں انہیں ذلت والوں ( اعرابیوں ) کو مدینہ سے ضرور نکال بھگا دینا چاہیئے، زید کہتے ہیں: میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میں نے عبداللہ بن ابی کی بات سن لی، تو اپنے چچا کو بتا دی، چچا گئے، انہوں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیدی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا، اس نے آ کر قسمیں کھائیں اور انکار کیا ( کہ میں نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا مان لیا اور مجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، پھر میرے چچا میرے پاس آئے، بولے ( بیٹے ) تو نے کیا سوچا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر غصہ ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے تجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، ( یہ سن کر ) مجھے اتنا غم اور صدمہ ہوا کہ شاید اتنا غم اور صدمہ کسی اور کو نہ ہوا ہو گا، میں غم سے اپنا سر جھکائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں چلا ہی جا رہا تھا کہ یکایک آپ میرے قریب آئے میرے کان کو جھٹکا دیا اور میرے سامنے مسکرا دیئے مجھے اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بدلے میں اگر مجھے دنیا میں جنت مل جاتی تو بھی اتنی خوشی نہ ہوتی، پھر مجھے ابوبکر رضی الله عنہ ملے، مجھ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا: مجھ سے آپ نے کچھ نہیں کہا: البتہ میرے کان پکڑ کر آپ نے ہلائے اور مجھے دیکھ کر ہنسے، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: خوش ہو جاؤ، پھر مجھے عمر رضی الله عنہ ملے، میں نے انہیں بھی وہی بات بتائی، جو میں نے ابوبکر رضی الله عنہ سے کہی تھی، پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( نماز فجر میں ) سورۃ منافقین پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Al-Hakam bin Utaibah said: “I heard Muhammad bin Ka’b Al-Qurazi – forty years ago – narrating from Zaid bin Arqam [may Allah be pleased with him] that during the battle of Tabuk, Abdullah bin Ubayy said: “If we return to Al-Madinah, indeed the more honorable will expel therefrom the meaner.” He said: ‘So I went to the Prophet and mentioned that to him, but he (Abdullah) took an oath that he did not say it. My people blamed me for that, they said: “What did you expect to accomplish from this?’ So I went to my house and slept full of grief. Then the Prophet came to me’ or ‘I went to him, and he said: “Indeed Allah has verified the truth of what you said.” He said: ‘So this Ayah was revealed: there are the ones who say: “Do not spend on those who are with the Messenger of Allah until they desert from him.”
حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کرتے سن رہا ہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن ابی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہر کریں گے، وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، اور آپ کو یہ بات بتا دی ( جب اس سے بازپرس ہوئی ) تو وہ قسم کھا گیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی، لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی ( جھوٹ ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آ گیا، رنج و غم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے یا میں آپ کے پاس پہنچا ( راوی کو شک ہو گیا ہے کہ زید بن ارقم رضی الله عنہ نے یہ کہا یا وہ کہا ) آپ نے فرمایا: ”اللہ نے تجھے سچا ٹھہرایا ہے یہ آیت نازل ہوئی ہے: «هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا» ”وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں“ ( المنافقون: ۷ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sufyan narrated from Amr bin Dinar that he heard Jabir bin Abdullah saying: “We were in a battle” – Sufyan said: “They say it was the battle of Banu Mustaliq” – “A man from the Muhajirin kicked a man from the Ansar. The man from the Muhajirin said: ‘O Muhajirin!’ the man from the Ansar said: ‘O Ansar!’ The Prophet heard that and said: ‘What is this evil call of Jahliyyah?’ They said: ‘A man from the Muhajirin kicked a man from the Ansar.’ So the Prophet said: ‘Leave that, for it is offensive.’ Abdullah bin Ubayy bin Salul heard that and said: ‘Did they really do that? By Allah! If we return to Al-Madinah indeed the more honorable will expel therefrom the meaner.’ Umar said: ‘Allow me to chop off the head of this hypocrite, O Messenger of Allah!’ The Prophet said: ‘Leave him, I do not want the people to say that Muhammad kills his Companions.’” Someone other than Amr said: “So his son, Abdullah bin Abdullah, said: ‘By Allah! You shall not return until you say that you are the mean and that the Messenger of Allah is the honorable.’ So he did so.”
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے، ( سفیان کہتے ہیں: لوگوں کا خیال یہ تھا کہ وہ غزوہ بنی مصطلق تھا ) ، مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری شخص کے چوتڑ پر لات مار دی، مہاجر نے پکارا: اے مہاجرین، انصاری نے کہا: اے انصاریو! یہ ( آواز ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لی، فرمایا: ”جاہلیت کی کیسی پکار ہو رہی ہے؟“ لوگوں نے بتایا: ایک مہاجر شخص نے ایک انصاری شخص کو لات مار دی ہے، آپ نے فرمایا: ”یہ ( پکار ) چھوڑ دو، یہ قبیح و ناپسندیدہ پکار ہے“، یہ بات عبداللہ بن ابی بن سلول نے سنی تو اس نے کہا: واقعی انہوں نے ایسا کیا ہے؟ قسم اللہ کی مدینہ پہنچ کر ہم میں سے عزت دار لوگ ذلیل و بےوقعت لوگوں کو نکال دیں گے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانے دو ( گردن نہ مارو ) لوگ یہ باتیں کرنے لگیں کہ محمد تو اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیتا ہے“، عمرو بن دینار کے علاوہ دوسرے راویوں نے کہا: عبداللہ بن ابی سے اس کے بیٹے عبداللہ ابن عبداللہ نے ( تو یہاں تک ) کہہ دیا کہ تم پلٹ نہیں سکتے جب تک یہ اقرار نہ کر لو کہ تم ہی ذلیل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی باعزت ہیں تو اس نے اقرار کر لیا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Ad-Dahhak bin Muzahim narrated: From Ibn Abbas [may Allah be pleased with him] who said: “Whoever has wealth, required him to perform Hajj to the House of his Lord, or upon which Zakat is obligatory, but he does not do it, then he shall ask to return (the world) upon his death.” A man said: “Oh Ibn Abbas! Have Taqwa of Allah! It is only the disbelievers who will be asked to return.” He said: “For that, I shall recite to you from the Qur’an: You who believe! Let not your properties or your children divert you from the remembrance of Allah. And whosever does that, then they are with the losers. And spend of that which We have provided you before death comes to one of you, and says: “My Lord! If only You would give me respite for a little while, then I should give Sadaqah” up to His saying: “And Allah is All-Aware of what you do.” He said: “So what makes Zakat obligatory?” He said: “When wealth reaches two hundred or above.” He said: “What makes Hajj obligatory?” He said: “Provisions and a camel.”
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ حج بیت اللہ کو جا سکے یا اس پر اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہو اور وہ حج کو نہ جائے، زکاۃ ادا نہ کرے تو وہ مرتے وقت اللہ سے درخواست کرے گا کہ اسے وہ دنیا میں دوبارہ لوٹا دے، ایک شخص نے کہا: ابن عباس! اللہ سے ڈرو، دوبارہ لوٹا دیئے جانے کی آرزو تو کفار کریں گے ( نہ کہ مسلمین ) ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: میں تمہیں اس کے متعلق قرآن پڑھ کر سناتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يا أيها الذين آمنوا لا تلهكم أموالكم ولا أولادكم عن ذكر الله ومن يفعل ذلك فأولئك هم الخاسرون وأنفقوا من ما رزقناكم من قبل أن يأتي أحدكم الموت» سے «والله خبير بما تعملون» ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں، اور جس نے ایسا کیا وہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے، اور جو روزی ہم نے تمہیں دی ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہنے لگے کہ اے میرے رب! کیوں نہ تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دے لیتا، اور نیک لوگوں میں سے ہو جاتا اور جب کسی کا مقررہ وقت آ جاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو سب معلوم ہے“ ( المنافقین: ۹-۱۱ ) ، تک۔ اس نے پوچھا: کتنے مال میں زکاۃ واجب ہو جاتی ہے؟ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: جب مال دو سو درہم ۱؎ ہو جائے یا زیادہ، پھر پوچھا: حج کب واجب ہوتا ہے؟ کہا: جب توشہ اور سواری کا انتظام ہو جائے۔