Jabir bin Abdullah [may Allah be pleased with him] said: “I heard the Messenger of Allah – and he was narrating about the pause in Revelation – so he said in his narration: “I was walking, when I heard a voice from the heavens. So I raised my head, and there was an angel, the one that had come to me at Hira, sitting upon a chair between the heavens and the earth. I fled from him out of fear, and I returned and said: ‘Wrap me up! Wrap me up! So they covered me.” Then Allah, Most High revealed: ‘O you who are wrapped up! Arise and warm.’ Up to His saying: ‘And keep away from the Rujz!’ before the Salat was made obligatory.”
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ وحی موقوف ہو جانے کے واقعہ کا ذکر کر رہے تھے، آپ نے دوران گفتگو بتایا: ”میں چلا جا رہا تھا کہ یکایک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی، میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ فرشتہ جو ( غار ) حراء میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، رعب کی وجہ سے مجھ پر دہشت طاری ہو گئی، میں لوٹ پڑا ( گھر آ کر ) کہا: مجھے کمبل میں لپیٹ دو، تو لوگوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا، اسی موقع پر آیت «يا أيها المدثر قم فأنذر» سے «والرجز فاهجر» ”اے کپڑا اوڑھنے والے، کھڑے ہو جا اور لوگوں کو ڈرا، اور اپنے رب کی بڑائیاں بیان کر، اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر، اور ناپاکی کو چھوڑ دے“ ( المدثر: ۱-۵ ) ، تک نازل ہوئی، یہ واقعہ نماز فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث یحییٰ بن کثیر نے بھی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے واسطہ سے جابر سے بھی روایت کی ہے، ۳- اور ابوسلمہ کا نام عبداللہ ہے۔ ( یہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے بیٹے تھے اور ان کا شمار فقہائے مدینہ میں ہوتا تھا ) ۔
Abu Sa’eed narrated that: The Messenger of Allah said: “As-Sa’ud is a mountain of fire, a disbeliever will be rised upon it for seventy autumns, and them similarly he will fall down it, forever.”
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «صعود» جہنم کا ایک پہاڑ ہے، اس پر کافر ستر سال تک چڑھتا رہے گا پھر وہاں سے لڑھک جائے گا، یہی عذاب اسے ہمیشہ ہوتا رہے گا“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے مرفوع صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- اس حدیث کا کچھ حصہ عطیہ سے مروی ہے جسے وہ ابوسعید سے موقوفاً روایت کرتے ہیں۔
Jabir [bin Abdullah] said: “Some people from the Jews said to some people among the Companions of the Prophet: ‘Does your Prophet know how many keepers are there in Jahannam?’ They said: ‘We do not know until we ask our Prophet and said: ‘O Muhammad! Your Companions were defeated today.’ He said: ‘In what were they defeated?’ He said: ‘Some Jews asked them if their Prophet knew how many keepers are there in Jahannam.’ He said: ‘So what did they say?’ He said: ‘They said: “We do not know until we ask our Prophet.” He said: ‘Are a people defeated who are asked about something that they do not know, merely because they said, “We do not know until we ask our Prophet?” Rather, there (people) did ask their Prophet, they said: “Show us Allah plainly.” I should ask the enemies of Allah about the Darmak.’ So when they came to him they said: ‘O Abul-Qasim! How many keepers are there in Jahannum?’ He said: ‘This and that many.’ One time ten, and one time nine. They said: ‘Yes.’ He said to them: ‘What is the dirt of Paradise?’” He said: “They were silent for a while, then they said: ‘Is it bread O Abul-Qasim?’ So the Prophet said: ‘The bread is made of Ad-Darmak.’”
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ کچھ یہودیوں نے بعض صحابہ سے پوچھا: کیا تمہارا نبی جانتا ہے کہ جہنم کے نگراں کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہم نہیں جانتے مگر پوچھ کر جان لیں گے، اسی دوران ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، کہا: اے محمد! آج تو تمہارے ساتھی ہار گئے، آپ نے پوچھا: ”کیسے ہار گئے؟“ اس نے کہا: یہود نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارا نبی جانتا ہے کہ جہنم کے نگراں کتنے ہیں؟ آپ نے پوچھا: ”انہوں نے کیا جواب دیا؟“ اس نے کہا: انہوں نے کہا: ہمیں نہیں معلوم، ہم اپنے نبی سے پوچھ کر بتا سکتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا وہ قوم ہاری ہوئی مانی جاتی ہے جس سے ایسی چیز پوچھی گئی ہو جسے وہ نہ جانتی ہو اور انہوں نے کہا ہو کہ ہم نہیں جانتے جب تک کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ نہ لیں؟ ( اس میں ہارنے کی کوئی بات نہیں ہے ) البتہ ان لوگوں نے تو اس سے بڑھ کر بےادبی و گستاخی کی بات کی، جنہوں نے اپنے نبی سے یہ سوال کیا کہ ہمیں اللہ کو کھلے طور پر دکھا دو“، آپ نے فرمایا: ”اللہ کے ان دشمنوں کو ہمارے سامنے لاؤ میں ان سے جنت کی مٹی کے بارے میں پوچھتا ہوں، وہ نرم مٹی ہے“، جب وہ سب یہودی آ گئے تو انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! جہنم کے نگراں لوگوں کی کتنی تعداد ہے؟ آپ نے اس طرح ہاتھ سے اشارہ فرمایا: ”ایک مرتبہ دس ( انگلیاں دکھائیں ) اور ایک مرتبہ نو ( کل ۱۹ ) “ انہوں نے کہا: ہاں، ( آپ نے درست فرمایا ) اب آپ نے پلٹ کر ان سے پوچھا: ”جنت کی مٹی کا ہے کی ہے؟“ راوی کہتے ہیں: وہ لوگ تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر کہنے لگے: ابوالقاسم! وہ روٹی کی ہے، آپ نے فرمایا: ”روٹی میدہ ( نرم مٹی ) کی ہے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے مجالد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
Anas bin Malik narrated that: The Messenger of Allah said regarding this Ayah: “He is the One deserving of the Taqwa, and He is the One Who forgives. – he said: ‘Allah, Blessed is He and Most High, said: “I am the most worthy to have Taqwa of, so whoever has Taqwa of Me, not having any god besides Me, then I am most worthy that I forgive him.”
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «هو أهل التقوى وأهل المغفرة» ”وہی ( اللہ ) ہے جس سے ڈرنا چاہیئے، اور وہی مغفرت کرنے والا ہے“ ( المدثر: ۵۶ ) ، کے بارے میں فرمایا: اللہ عزوجل کہتا ہے کہ میں اس کا اہل اور سزاوار ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، تو جو مجھ سے ڈرا اور میرے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرایا تو مجھے لائق ہے کہ میں اسے بخش دوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- سہل حدیث میں قوی نہیں مانے جاتے ہیں اور وہ یہ حدیث ثابت سے روایت کرنے میں تنہا ( بھی ) ہیں۔