ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب کوئی قوم ہدایت یافتہ ہونے کے بعد گمراہی اختیار کر لیتی ہے تو باہمی نزاع ان کا شغل بن جاتا ہے ۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ وہ آپ سے یہ باتیں محض جھگڑا پیدا کرنے کے لیے کرتے ہیں بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد (۵/ ۲۵۲ ح ۲۲۵۱۷ ، ۵/ ۲۵۶ ح ۲۲۵۵۸) و الترمذی (۳۲۵۳) و ابن ماجہ (۴۸) و الحاکم (۲/ ۴۴۸) ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے :’’ اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالا کرو ، ورنہ اللہ بھی تمہیں مشقت میں ڈال دے گا ، کیونکہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی ، یہودونصاری کی عبادت گاہوں میں یہ سختیاں انہی کی باقیات ہیں ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کی تھی ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد (۴۹۰۴) عند البخاری فی التاریخ الکبیر (۴ /۹۴) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قرآن پانچ امور کے متعلق نازل ہوا ، حلال و حرام ، محکم و متشابہ اور امثال ۔ تم حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو ، محکم پر عمل کرو اور متشابہ پر ایمان لاؤ اور امثال (پہلی امتوں کے واقعات) سے عبرت حاصل کرو ۔‘‘ یہ مصابیح کے الفاظ ہیں ۔ بیہقی نے شعب الایمان میں ان الفاظ سے نقل کیا ہے :’’ حلال پر عمل کرو ، حرام سے اجتناب کرو اور محکم کی اتباع کرو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان (۲۲۹۳) ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ امر تین قسم کے ہیں ، ایک امر وہ ہے جس کی رشدو بھلائی واضح ہے ، پس اس کی اتباع کرو ، ایک امر وہ ہے جس کی گمراہی واضح ہے پس اس سے اجتناب کرو اور ایک امر وہ ہے جس کے متعلق اختلاف کیا گیا ہے ، پس اسے اللہ عزوجل کے سپرد کرو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ احمد (لم اجدہ) و الطبرانی فی الکبیر (۱۰/ ۳۸۶ ح ۱۰۷۷۴) ۔
معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک شیطان انسان کے لیے بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کے لیے بھیڑیا ہوتا ہے ، وہ الگ ہونے والی ، دور جانے والے اور ایک جانب ہونے والی بکری کو پکڑتا ہے ۔ پس تم گھاٹیوں (الگ الگ ہونے) سے بچو اور تم جماعت عامہ کو لازم پکڑ لو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد (۵/ ۲۴۳ ح ۲۲۴۵۸ ، ۵/ ۲۳۲ ح ۲۲۳۷۹) ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے جماعت سے بالشت برابر علیحدگی اختیار کی تو اس نے اپنی گردن سے اسلام کی رسی (یعنی پابندی ) اتار دی ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد (۵/ ۱۸۰ ح ۲۱۸۹۴) و ابوداؤد (۴۷۵۸) و ابن ابی عاصم فی السنہ (۱۰۵۳) و الحاکم (۱/ ۱۱۷) و الترمذی (۲۸۶۳) ۔
مالک بن انس ؒ مرسل روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ، پس جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ، (یعنی) اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ۔‘‘ حسن ، رواہ مالک فی الموطا (۲/ ۸۹۹ ح ۱۷۲۷) و الحاکم (۱/ ۹۳ ح ۳۱۸) ۔
غضیف بن حارث ثمالی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو اسی کی مثل سنت اٹھا لی جاتی ہے ، پس سنت پر عمل کرنا بدعت ایجاد کرنے سے بہتر ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد (۴/ ۱۰۵ ح ۱۷۰۹۵) ۔
حسان ؒ بیان کرتے ہیں ، جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو اللہ اس کی مثل ان کی سنت چھین لیتا ہے ، پھر وہ اسے روز قیامت تک ان کی طرف نہیں لوٹاتا ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الدارمی (۱/ ۴۵ ح ۹۹) ۔
ابراہیم بن میسرہ ؒ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم و نصرت کی تو اس نے اسلام کے گرانے پر معاونت کی ۔‘‘ حسن ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان (۹۴۶۴) ۔
ابن عباس ؓ نے فرمایا : جس شخص نے اللہ کی کتاب کی تعلیم حاصل کی ، پھر اس کے مطابق عمل کیا تو اللہ اس شخص کو دنیا میں گمراہی سے بچاتا ہے اور قیامت کے دن اسے حساب کی تکلیف سے بچائے گا ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے ، ابن عباس ؓ نے فرمایا ، جس شخص نے اللہ کی کتاب کی اقتدا کی تو وہ دنیا میں گمراہ ہوگا نہ آخرت میں تکلیف اٹھائے گا ، پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی :’’ جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ گمراہ ہو گا نہ تکلیف میں پڑے گا ۔‘‘ ضعیف ، رواہ رزین (لم اجدہ) و عبدالرزاق (۳/ ۳۸۲ ح۶۰۳۳) و ابن ابی شیبہ (۱۰/ ۴۶۷ ، ۴۶۸ ح ۲۹۹۴۶ ، ۱۳/ ۳۷۱ ، ۳۷۲ ح ۳۴۷۷۰) و الحاکم (۲/ ۳۸۱ ح ۳۴۳۸) و البیھقی فی شعب الایمان (۲۰۲۹) ۔
ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ نے صراط مستقیم کی مثال بیان فرمائی ، کہ راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں ، ان میں دروازے کھلے ہوئے ہیں اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں ، راستے کے سرے پر ایک داعی ہے ، وہ کہہ رہا ہے ، سیدھے چلتے جاؤ ، ٹیڑھے مت ہونا ، اور اس کے اوپر ایک اور داعی ہے ، جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی چیز کو کھولنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے : تم پر افسوس ہے ، اسے مت کھولو ، کیونکہ اگر تم نے اسے کھول دیا تو تم اس میں داخل ہو جاؤ گے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :’’ راستہ اسلام ہے ، کھلے ہوئے دروازے ، اللہ کی حرام کردہ اشیاء ہیں ، لٹکے ہوئے پردے ، اللہ کی حدود ہیں ، راستے کے سرے پر داعی : قرآن ہے ، اور اس کے اوپر جو داعی ہے ، وہ ہر مومن کے دل میں اللہ کا واعظ ہے ۔‘‘ لااصل لہ بھذا اللفظ ، رواہ رزین (لم اجدہ) ۔
امام احمد ، اور بیہقی نے شعب الایمان میں نواس بن سمعان ؓ سے اور اسی طرح امام ترمذی نے انہی سے روایت کیا ہے ، البتہ انہوں نے اس سے مختصر روایت کیا ہے ۔ حسن ، رواہ احمد (۴/ ۱۸۲ ، ۱۸۳ ح۱۷۷۸۴) و البیھقی فی شعب الایمان (۷۲۱۶) و الترمذی (۲۸۵۹) ۔
ابن مسعود ؓ نے فرمایا : جو کوئی کسی شخص کی راہ اپنانا چاہے تو وہ ان اشخاص کی راہ اپنائے جو فوت ہو چکے ہیں ، کیونکہ زندہ شخص فتنے سے محفوظ نہیں رہا ، اور وہ (فوت شدہ اشخاص) محمد ﷺ کے ساتھی ہیں ، وہ اس امت کے بہترین افراد تھے ، وہ دل کے صاف ، علم میں عمیق اور تکلف و تصنع میں بہت کم تھے ، اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی صحبت اور اپنے دین کی اقامت کے لیے انہیں منتخب فرمایا ، پس ان کی فضیلت کو پہچانو ، ان کے آثار کی اتباع کرو اور ان کے اخلاق و کردار کو اپنانے کی مقدور بھر کوشش کرو ، کیونکہ وہ ہدایت مستقیم پر تھے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ رزین (لم اجدہ) ۔
جابر ؓ سے روایت ہے ، عمر بن خطاب ؓ تورات کا ایک نسخہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہ تورات کا نسخہ ہے ، آپ خاموش رہے ، اور انہوں نے اسے پڑھنا شروع کر دیا ، جبکہ رسول اللہ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدلنے لگا ، ابوبکر نے فرمایا : گم کرنے والی تمہیں گم پائیں ، تم رسول اللہ ﷺ کے رخ انور کی طرف نہیں دیکھ رہے ، عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دیکھا تو فوراً کہا : میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ، میں اللہ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہوں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ۔ اگر موسیٰ ؑ بھی تمہارے سامنے آ جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کرنے لگو تو تم سیدھی راہ سے گمراہ ہو جاؤ گے ، اور اگر وہ زندہ ہوتے اور وہ میری نبوت (کا زمانہ ) پا لیتے تو وہ بھی میری ہی اتباع کرتے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱/ ۱۱۵ ، ۱۱۶ ح ۴۴۱) ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ نے فرمایا :’’ میرا کلام ، اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کر سکتا ، جبکہ اللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کر سکتا ہے اور اور اللہ کا کلام ایک دوسرے کو منسوخ کر سکتا ہے ۔‘‘ اسنادہ موضوع ، رواہ الدارقطنی (۴/ ۱۴۵) ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہماری احادیث بھی ایک دوسرے کو منسوخ کر دیتی ہیں ۔ جس طرح قرآن کا بعض حصہ دوسرے حصے کو منسوخ کر دیتا ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا منکر ، رواہ الدارقطنی (۴/ ۱۴۵) ۔
ابوثعلبہ الخشنی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ نے فرائض مقرر کیے ہیں ، انہیں ضائع نہ کرو ، اس نے حرمات کو حرام قرار دیا ہے ، پس ان کے قریب نہ جاؤ اور اللہ نے حدود متعین کی ہیں پس ان سے تجاوز نہ کرو اور اس نے جانتے بوجھتے کچھ چیزوں سے سکوت فرمایا ، پس ان کے متعلق بحث نہ کرو ۔‘‘ مذکورہ تینوں احادیث کو دارقطنی نے بیان کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارقطنی (۴/ ۱۸۳ ، ۱۸۴) و البیھقی (۱۰/ ۱۲ ، ۱۳)۔