ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک ایمان مدینہ کی طرف سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۱۸۷۶) و مسلم ۔ ہم ان شاءاللہ تعالیٰ ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث : ((ذرونی ما ترکتکم)) کتاب المناسک میں اور معاویہ و جابر ؓ سے مروی حدیثیں : ((لایزال من امتی)) اور ((ولا یزال طائفۃ من امتی)) باب ثواب ھذہ الامۃ میں ذکر کریں گے ۔
ربیعہ جرشی ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ کی خدمت میں ایک فرشتہ حاضر ہوا ، اور آپ سے عرض کیا گیا : آپ کی آنکھیں سوئی ہوئی ہوں (کسی اور طرف نہ دیکھیں) آپ کے کان توجہ سے سنتے ہوں اور آپ کا دل سمجھتا ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میری آنکھیں سو گئیں ، میرے کان غور سے سنتے رہے اور میرا دل سمجھتا رہا ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے کہا گیا : کسی سردار نے کوئی گھر بنایا ، اس میں دسترخوان لگایا اور کسی دعوت دینے والے کو بھیجا ، پس جس شخص نے داعی کی دعوت کو قبول کر لیا ، وہ گھر میں داخل ہوا ، کھانا کھایا اور وہ سردار اس سے خوش ہو گیا ، اور جس شخص نے داعی کی دعوت قبول نہ کی تو وہ گھر میں داخل ہوا نہ کھانا کھایا اور سردار بھی اس پر ناراض ہوا ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ ، سردار ہے ، محمد ﷺ داعی ہیں ، گھر سے مراد اسلام اور دسترخوان سے مراد جنت ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱/ ۷ ح ۱۱) ۔
ابورافع ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تم میں سے کسی کو اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرا کوئی امر آئے ، جس کے متعلق میں نے حکم دیا ہو یا میں نے اس سے منع کیا ہو ، تو وہ شخص یوں کہے : میں (اسے) نہیں جانتا ، ہم نے جو کچھ اللہ کی کتاب میں پایا ، ہم اس کی اتباع کریں گے ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد (۶/ ۸ ح ۲۴۳۶۲ ، اطراف المسند ۶/ ۲۱۸) و الترمذی (۲۶۶۳) و ابوداود (۶۰۵) و ابن ماجہ (۱۳) و البیھقی فی دلائل النبوۃ (۱/ ۲۵ ، ۶/ ۵۴۹) و ابن حبان (۱۳) و الحاکم (۱/ ۱۰۸ ، ۱۰۹) ۔
مقداد بن معدی کرب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ، مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اس کی مثل عطا کی گئی ہے ، سن لو ، قریب ہے کہ کوئی شکم سیر شخص اپنی مسند پر یوں کہے : تم اس قرآن کو لازم پکڑو پس تم جو چیز اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور تم جو چیز اس میں حرام پاؤ تو اسے حرام سمجھو ، حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، سن لو ، پالتو گدھے ، کچلی والے درندے اور ذمی کی گری پڑی کوئی چیز ، الا یہ کہ وہ خود اس سے بے نیاز ہو جائے ، تمہارے لیے حلال نہیں ، اور جو شخص کسی قوم کے ہاں پڑاؤ ڈالے تو ان لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی ضیافت کریں ، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں ، تو پھر اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضیافت کے برابر ان سے وصول کرے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد (۴۶۰۴) و دارمی (۱/ ۱۴۴ ح ۵۹۲) و ابن ماجہ (۱۲) و ابن حبان (۹۷) ۔ دارمی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے ، اور اسی طرح ابن ماجہ نے ((کما حرم اللہ)) تک روایت کیا ہے ۔
عرباض بن ساریہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا :’’ کیا تم میں سے کوئی اپنی مسند پر ٹیک لگا کر یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے صرف وہی کچھ حرام قرار دیا ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے ، سن لو ! اللہ کی قسم ! میں نے بھی کچھ چیزوں کے بارے میں حکم دیا ہے ، وعظ و نصیحت کی اور کچھ چیزوں سے منع کیا ، بلاشبہ وہ بھی قرآن کی مثل ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے ، بے شک اللہ نے تمہارے لیے حلال نہیں کیا کہ تم بلا اجازت اہل کتاب (ذمیوں) کے گھروں میں داخل ہو جاؤ اور جب تک وہ تمہیں جزیہ دیتے رہیں ، ان کی خواتین کو مارنا اور ان کے پھل کھانا تمہارے لیے حلال نہیں ۔‘‘ ابوداؤد ، اس کی سند میں اشعث بن شعبہ مصیصی راوی ہے جس پر کلام کیا گیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد (۳۰۵۰) ۔
عرباض بن ساریہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک روز رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی ، پھر آپ نے اپنا رخ انور ہماری طرف کیا تو ایک بڑے بلیغ انداز میں ہمیں وعظ و نصیحت فرمائی جس سے آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور دل ڈر گئے ، ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو الوداعی نصیحتیں معلوم ہوتی ہیں ، پس آپ ہمیں وصیت فرمائیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے ، سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں خواہ وہ (امیر) حبشی غلام ہو ، کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا ، پس تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے ، پس تم اس سے تمسک اختیار کرو اور داڑھوں کے ساتھ اسے پکڑ لو ، اور دین میں نئے کام جاری کرنے سے بچو ، کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘ احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ۔ البتہ امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے نماز کا ذکر نہیں کیا ۔ صحیح ، رواہ احمد (۴/ ۱۲۶ ، ۱۲۷ ح ۱۷۲۷۵) و ابوداؤد (۴۶۰۷) و الترمذی (۲۶۷۶) و ابن ماجہ (۴۳) و ابن حبان (۱۰۲) و الحاکم (۱/ ۹۵ ، ۹۶) ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے ایک خط کھینچا ، پھر فرمایا :’’ یہ اللہ کی راہ ہے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اس کے دائیں بائیں کچھ خط کھینچے ، اور فرمایا :’’ یہ اور راہیں ہیں ، اور ان میں سے ہر راہ پر ایک شیطان ہے جو اس راہ کی طرف بلاتا ہے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ یہ میری سیدھی راہ ہے ، پس اس کی اتباع کرو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد (۱/ ۴۳۵ ح ۴۱۴۲) و النسائی (فی الکبریٰ : ۱۱۱۷۴ ، التفسیر : ۱۹۴) و الدارمی (۱/ ۶۷ ، ۶۸ ح ۲۰۸) و ابن حبان (۱۷۴۱ ، ۱۷۴۲) و الحاکم (۲/ ۳۱۸) و ابن ماجہ (۱۱) ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع ہو جائیں ،‘‘ امام بغوی نے شرح السنہ میں اسے روایت کیا ہے ۔ امام نووی نے اربعین میں فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور ہم نے اسے کتاب الحجہ میں صحیح سند کےساتھ روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ (۱/ ۲۱۲ ، ۲۱۳ ح ۱۰۴) و النووی فی الاربعین (۴۱) ۔
بلال بن حارث مزنی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے میری کسی ایسی سنت کا احیا کیا ، جسے میرے بعد ترک کر دیا گیا ، تو اسے بھی ، اس پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی ، اور جس نے بدعت و ضلالت کو جاری کیا جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے ، تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی (۲۶۷۷) و ابن ماجہ (۲۰۹) ۔
وَرَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ نے یہ روایت کثیر بن عبداللہ بن عمرو عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے بیان کی ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ ابن ماجہ (۲۱۰) ۔
عمرو بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دین حجاز کی طرف اس طرح سمٹ جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ جاتا ہے ، اور دین حجاز میں اس طرح محفوظ ہو گا جس طرح پہاڑی بکری پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لیتی ہے ، بے شک دین کا آغاز اجنبیت کے عالم میں ہوا اور وہ عنقریب اسی حالت میں لوٹ جائے گا جیسے شروع ہوا ، ایسے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے ، اور یہی وہ لوگ ہیں جو میری سنت کی اصلاح و احیا کریں گے جسے لوگوں نے میرے بعد خراب کر دیا ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی (۲۶۳۰) ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت پر ایسا وقت آئے گا جیسے بنی اسرائیل پر آیا تھا ، اور وہ مماثلت میں ایسے ہو گا جیسے جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے ، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے علانیہ بدکاری کی ہو گی تو میری امت میں بھی ایسا کرنے والا شخص ہو گا ، بے شک بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو گی ، ایک ملت کے سوا باقی سب جہنم میں ہوں گے ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! وہ ایک ملت کون سی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۶۴۱) ۔
احمد اور ابوداؤد میں معاویہ ؓ سے مروی روایت میں ہے :’’ بہترّ جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا ، اور عنقریب میری امت میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے ان میں یہ بدعات اس طرح سرایت کر جائیں گی جس طرح باؤلے کتے کا اثر کٹے ہوئے شخص کے رگ و ریشے میں سرایت کر جاتا ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد (۴/ ۱۰۲ ح ۱۷۰۶۱) و ابوداؤد (۴۵۹۷) ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ میری امت کو ۔‘‘ یا فرمایا :’’ محمد ﷺ کی امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ جہنم میں الگ ڈالا جائے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۱۶۷) و الحاکم (۱/ ۱۱۶ ح ۳۹۹) ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سواداعظم (بڑی جماعت ) کی اتباع کرو ، کیونکہ جو الگ ہوا ، وہ جہنم میں ڈالا جائے گا ۔‘‘ امام ابن ماجہ نے یہ حدیث انس ؓ سے روایت کی ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الحاکم فی المستدرک (۱/ ۱۱۵ ، ۱۱۶) و ابن ماجہ (۳۹۵۰) ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا :’’ بیٹا ! اگر تو صبح و شام اس حالت میں کر سکے کہ تمہارے دل میں کسی کے لیے بدخواہی نہ ہو تو ایسا کر ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ بیٹا ! یہ طرز عمل میری سنت ہے ، اور جس نے میری سنت سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی ، اور جس نے مجھ سے محبت کی تو وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۶۷۸) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت پر عمل کیا تو اس کے لیے سو شہید کا ثواب ہے ۔‘‘ ضعیف ، البیھقی فی الزھد (۲۰۹) و ابن عدی (۲/ ۷۳۹) و الطبرانی (۵۴۱۰) مجمع الزوائد (۱/ ۱۷۲ ، ۳/ ۲۰۸) الانوار للبغوی بتحقیقی (۱۲۳۷) ۔
جابر ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب عمر ؓ ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : ہم یہود سے کچھ تعجب انگیز باتیں سنتے ہیں ، کیا آپ اجازت مرحمت فرماتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض لکھ لیا کریں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم بھی یہود و نصاری کی طرح (اپنے دین کے بارے میں) حیران ہو ، جبکہ میں تمہارے پاس صاف اور واضح دین لے کر آیا ہوں ۔ اگر موسیٰ ؑ بھی زندہ ہوتے تو ان کے لیے بھی میری اتباع کے سوا کسی اور چیز کی اتباع جائز نہ ہوتی ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ احمد (۳/ ۳۸۷ ح ۱۵۲۲۳) البیھقی فی شعب الایمان (۱۷۶) و الدارمی (۱/ ۱۱۵ ، ۱۱۶ ح ۴۴۱)) ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے حلال کھایا ، سنت کے موافق عمل کیا اور لوگ اس کی شرانگیزیوں سے محفوظ رہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘ کسی آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس دور میں تو اس طرح کے بہت سے لوگ ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اور میرے بعد کے ادوار میں بھی ہوں گے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۵۲۰) و الحاکم (۴/ ۱۰۴) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم اس دور میں ہو کہ تم میں سے جس نے احکام شرعیہ کے دسویں حصے پر عمل نہ کیا تو وہ ہلاک ہو جائے گا ، پھر ایک ایسا دور آئے گا کہ ان میں سے جس نے احکامات شرعیہ کے دسویں حصے پر عمل کر لیا تو وہ نجات پا جائے گا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۲۶۷) ۔