ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ نے آدم ؑ کو اس کی صورت پر تخلیق فرمایا ، ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا ، جب اس نے انہیں پیدا کیا تو فرمایا : جاؤ اس جماعت کو سلام کرو ، اس جماعت میں چند فرشتے بیٹھے ہوئے تھے وہ آپ کو جو جواب دیں ، وہ غور سے سنیں ، چنانچہ وہی جواب تمہارا اور تمہاری اولاد کا ہو گا ، وہ گئے اور انہوں نے ان سے کہا : السلام علیکم ! انہوں نے کہا : السلام علیک و رحمۃ اللہ !‘‘ انہوں نے انہیں لفظ رحمۃ اللہ کا زائد جواب دیا ۔‘‘ فرمایا :’’ جنت میں جانے والا ہر شخص صورتِ آدم ؑ پر ہو گا ، اس کا قد ساٹھ ہاتھ ہو گا ، ان کے بعد پھر مسلسل اب تک قد و قامت میں کمی واقع ہوتی چلی آ رہی ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ، کون سا (آداب) اسلام بہتر ہے ؟ فرمایا :’’ (یہ کہ) تم کھانا کھلاؤ اور تم جسے جانتے ہو اسے بھی اور جسے نہیں جانتے اسے بھی سلام کرو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن کے مومن پر چھ حق ہیں : جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرے ، جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو ، جب وہ دعوت دے تو اسے قبول کرے ، جب وہ اس سے ملاقات کرے تو اسے سلام کرے ، جب اسے چھینک آئے (اور الحمد للہ کہے) تو وہ اسے یرحمک اللہ کہہ کر جواب دے ، اور اس کی موجودگی اور غیر موجودگی میں اس سے خیر خواہی کرے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ النسائی و الترمذی ۔ صاحب مشکوۃ کہتے ہیں : اور میں نے اسے نہ تو صحیحین میں پایا ہے نہ کتاب الحمیدی میں ، لیکن جامع الاصول کے مؤلف (ابن اثیر) نے اسے نسائی کی روایت سے ذکر کیا ہے ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک تم مومن نہیں بن جاتے ، تم اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک تم باہم محبت نہیں کرتے ، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں ! جب تم اسے کرنے لگ جاؤ گے تو تمہاری باہم محبت ہو جائے ، آپس میں سلام پھیلاؤ ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سوار ، پیدل چلنے والے کو ، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور قلیل ، کثیر کو سلام کریں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ چھوٹا بڑے کو ، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور قلیل ، کثیر کو سلام کریں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بچوں کے پاس سے گزرے اور انہیں سلام کیا ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو ، اور جب تم ان میں سے کسی کو راستے میں ملو تو انہیں راستے کے ایک طرف چلنے پر مجبور کر دو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب یہودی تمہیں سلام کرتے ہیں تو ان میں سے ایک تمہیں یہی کہتا ہے : السام علیک (تم پر موت واقع ہو) لہذا تم انہیں یہ جواب دو : وعلیک (تم پر ہو) ۔‘‘ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم (جواب میں اتنا) کہو :’’ وعلیکم ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، یہودیوں کی ایک جماعت نے نبی ﷺ سے اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا : تم پر موت واقع ہو ، میں نے کہا : بلکہ تم پر موت اور لعنت واقع ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ عائشہ ! بے شک اللہ مہربان ہے وہ ہر معاملے میں مہربانی و نرمی کرنے کو پسند فرماتا ہے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے کہہ دیا تھا : اور تم پر (موت واقع ہو) اور ایک دوسری روایت میں :’’ تم پر ‘‘ کے الفاظ ہیں ۔ انہوں نے واؤ کا ذکر نہیں کیا ۔ اور بخاری کی روایت میں ہے : عائشہ ؓ نے فرمایا :’’ یہودی نبی ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا : تم پر موت واقع ہو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اور تم پر ۔‘‘ عائشہ ؓ نے فرمایا : تم پر موت واقع ہو ، اللہ تم پر لعنت فرمائے اور تم پر ناراض ہو ۔ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عائشہ ! ٹھہرو ، نرمی اختیار کرو ، سختی اور بدگوئی سے اجتناب کرو ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : کیا آپ نے نہیں سنا جو انہوں نے کہا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم نے نہیں سنا جو میں نے کہا ، میں نے انہیں جواب دے دیا تھا ، ان کے متعلق میری بددعا قبول ہو گئی جبکہ ان کی میرے متعلق بددعا قبول نہیں ہوئی ۔‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ آپ بدگوئی کرنے والی نہ بنیں ، کیونکہ اللہ بے تکلف اور باتکلف بدگوئی کو پسند نہیں فرماتا ۔‘‘ متفق علیہ
اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ایسی مجلس سے گزر ہوا جس میں مسلمان ، بتوں کے پجاری مشرک اور یہودی بیٹھے ہوئے تھے ، تو آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا ۔ متفق علیہ ۔
ابوسعید خدری ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کرو ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! وہاں بیٹھنا ہماری مجبوری ہے اس کے بغیر گزارہ نہیں ، ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم نے ضرور بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرو ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! راستے کا حق کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نظریں جھکانا ، تکلیف نہ پہنچانا ، سلام کا جواب دینا ، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے اس (حدیث سابق میں مذکورہ) قصے کے متعلق روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اور راستہ بتانا ۔‘‘ امام ابوداؤد نے ابوسعید خدری ؓ سے مروی حدیث کے بعد اسی طرح روایت کیا ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عمر ؓ ، نبی ﷺ سے اس قصہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں ، فرمایا :’’ مظلوم کی مدد کرو اور راستہ بھٹکے ہوئے شخص کی رہنمائی کرو ۔‘‘ امام ابوداؤد نے ابوہریرہ ؓ کی حدیث کے بعد اسی طرح روایت کیا ہے ، اور میں نے ، ان دونوں حدیثوں کو صحیحین میں نہیں پایا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مسلمان کے مسلمان پر دستور کے مطابق چھ حقوق ہیں : جب اس سے ملاقات کرے تو اسے سلام کرے ، جب وہ دعوت دے تو اسے قبول کرے ، جب وہ چھینک مارے (اور وہ الحمد للہ کہے) تو اسے یرحمک اللہ کہے ، جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرے ، جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو ، اور اس کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا : السلام علیکم ! آپ ﷺ نے اسے جواب دیا ، پھر وہ بیٹھ گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ (اس کے لیے) دس (نیکیاں) ہیں ۔‘‘ پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا : السلام علیکم و رحمۃ اللہ ! آپ ﷺ نے اسے جواب دیا ، جب وہ بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (اس کے لیے) بیس (نیکیاں) ہیں ۔‘‘ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ! آپ ﷺ نے اسے جواب دیا ، جب وہ بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (اس کے لیے) تیس (نیکیاں) ہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
معاذ بن انس ؓ نے نبی ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث نقل کرتے ہوئے یہ اضافہ نقل کیا ہے ، پھر ایک اور آیا اور اس نے کہا : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (اس کے لیے) چالیس (نیکیاں) ہیں ۔‘‘ اور فرمایا :’’ فضائل اسی طرح ہوتے ہیں ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سلام میں پہل کرنے والا شخص اللہ کا سب سے زیادہ قریبی ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد ۔
جریر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ خواتین کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا ۔ حسن ، رواہ احمد ۔