ابوسعید خدری ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے ، اگر وہ طاقت نہ رکھے تو پھر اپنی زبان سے ، اگر وہ (اس کی بھی) استطاعت نہ رکھے تو پھر اپنے دل سے (بدلنے کے لیے منصوبہ بندی کرے اور اس سے نفرت رکھے) ، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کی حدود (قائم کرنے) میں سستی کرنے والے اور ان میں مبتلا ہونے والے شخص کی مثال اس قوم کی مثل ہے جنہوں نے ایک کشتی (میں سوار ہونے) کے متعلق قرعہ اندازی کی تو ان میں سے بعض اس کی نچلی منزل پر اور بعض بالائی منزل پر بیٹھ گئے ، جو نچلی منزل میں تھے وہ پانی لینے کے لیے بالائی منزل والوں کے اوپر سے گزرتے ، جس سے اوپر والے تکلیف محسوس کرتے ، لہذا نچلی منزل والوں نے کلہاڑا پکڑا اور کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگے ، چنانچہ اوپر والے ان کے پاس آئے اور پوچھا : تمہیں کیا ہوا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ (ہمارے اوپر جانے سے) تمہیں تکلیف ہوتی ہے اور پانی بھی ہماری مجبوری ہے ، اگر اوپر والوں نے اس کے ہاتھ روک لیے تو وہ اسے بھی بچا لیں گے اور اپنے آپ کو بھی بچا لیں گے ، اور اگر اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیں گے تو وہ اسے بھی ہلاک کر دیں گے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کر لیں گے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ روز قیامت ایک آدمی لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، اس کی انتڑیاں آگ میں نکل آئیں گی ، وہ ان کے گرد اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے ، جہنمی اس پر جمع ہو جائیں گے ، اور اس سے دریافت کریں گے : اے فلاں ! تمہیں کیا ہوا ؟ کیا تو ہمیں نیکی کرنے کا حکم نہیں دیتا تھا اور ہمیں برائی کرنے سے نہیں روکتا تھا ؟ وہ کہے گا : میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا ، اور میں تمہیں برائی سے روکتا تھا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تھا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم ضرور نیکی کا حکم کرو اور برائی سے منع کرو ، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنا عذاب نازل کر دے ، پھر تم اس سے دعائیں کرو گے لیکن وہ قبول نہ ہوں گی ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی ۔
عرس بن عمیرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب زمین پر گناہ کیا جائے اور وہاں موجود شخص اسے ناپسند کرے تو وہ اس شخص کی مانند ہے جو وہاں موجود نہیں ، اور جو شخص اس وقت وہاں موجود نہ ہو لیکن وہ اس پر راضی ہو تو وہ اس شخص کی مانند ہے جو وہاں موجود ہو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا :’’ لوگو ! تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو :’’ ایمان والو ! تم (گناہوں کے متعلق) اپنا خیال رکھو ، جب تم ہدایت پر ہو تو پھر گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔‘‘ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ بے شک جب لوگ کسی برائی کو دیکھیں گے اور اسے روکیں گے نہیں تو پھر قریب ہے کہ اللہ ان سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے ۔‘‘ ابن ماجہ ، ترمذی ، اور امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ اور ابوداؤد کی روایت میں ہے :’’ جب وہ ظالم کو (ظلم کرتے ہوئے) دیکھیں اور وہ اس کے ہاتھوں کو نہ روکیں تو پھر قریب ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے ۔‘‘ اور ابوداؤد کی دوسری روایت میں ہے :’’ جس قوم میں گناہ ہوتے ہوں پھر وہ انہیں روکنے کی طاقت کے باوجود نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ انہیں عذاب کی لپیٹ میں لے لے ۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے :’’ جس قوم کی اقلیت گناہ میں مبتلا ہو جائے اور وہ اکثریت جو گناہ تو نہیں کرتی مگر کرنے والوں کو روکتی بھی نہیں (وہ بھی عذاب سے دوچار ہو جائے گی) ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابن ماجہ و الترمذی و ابوداؤد ۔
جریر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اگر کوئی شخص کسی قوم میں گناہ کرتا ہو اور وہ لوگ اسے روکنے کی طاقت کے باوجود نہ روکیں تو پھر اللہ ان کے مرنے سے پہلے انہیں اپنے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان :’’ تم اپنی جانوں کو لازم پکڑو ، جب تم خود ہدایت پر ہو گے تو گمراہ لوگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔‘‘ کے بارے میں ابوثعلبہ ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : سن لو ! اللہ کی قسم ! میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بلکہ تم نیکی کرنے کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ، حتیٰ کہ جب تم دیکھو کہ بخل کی اطاعت کی جاتی ہے ، خواہش کی اتباع کی جاتی ہے ، دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے اور ہر شخص اپنی رائے و عقل پر خوش ہے ، اور تم دیکھو کہ ایک ایسا امر جس سے بچنا مشکل ہے تو پھر تم اپنی جانوں کو لازم پکڑو اور عام لوگوں کے معاملے کو چھوڑ دو ، کیونکہ آگے ایام صبر آنے والے ہیں ، جس شخص نے ان ایام میں صبر کیا گویا اس نے انگارہ پکڑا ، ان ایام میں عمل کرنے والے کے لیے پچاس آدمیوں کے عمل کرنے کے برابر اجر و ثواب ہے ۔‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ان کے پچاس آدمیوں کے اجر کی مانند ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان پچاس آدمیوں کے اجر کی مانند جو تم میں سے ہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نماز عصر کے بعد ہمیں خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے قیام قیامت تک پیش آنے والے تمام واقعات بیان فرمائے ، کچھ لوگوں نے اسے یاد رکھا اور کچھ لوگوں نے اسے بھلا دیا ، آپ کے خطاب میں یہ بھی تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دنیا شیریں و شاداب ہے ، بے شک اللہ تمہیں اس میں خلیفہ و جانشین بنانے والا ہے ، وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ، سن لو ! دنیا سے بچو ، اور عورتوں (کے فتنے) سے بچو ۔‘‘ اور آپ ﷺ نے ذکر فرمایا :’’ روز قیامت ہر عہد شکن کے لیے ، دنیا میں اس کی عہد شکنی کے مطابق ایک جھنڈا ہو گا ، اور امیر عامہ (صدر) کی عہد شکنی سے بڑھ کر کوئی عہد شکنی نہیں ہو گی ، اس کا جھنڈا اس کی سرین پر نصب کیا جائے گا ، اور لوگوں کا خوف تم میں سے کسی کو حق بات کہنے سے نہ روکے جبکہ وہ اسے جانتا ہو ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ اگر وہ کوئی برائی دیکھے ، تو اسے روک دے لوگوں کا خوف اسے ایسا کرنے سے نہ روکے ۔‘‘ چنانچہ (یہ بیان کر کے) ابوسعید ؓ رونے لگے ، اور فرمایا : یقیناً ہم نے اس کو دیکھا لیکن لوگوں کے خوف نے ہمیں اس کے متعلق بات کرنے سے روک دیا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ! آدم ؑ کی اولاد مختلف طبقات پر پیدا کی گئی ، ان میں سے کوئی تو مومن پیدا کیا گیا ، وہ اسی حالت میں زندہ رہا اور اسی حالت پر فوت ہوا ، اور ان میں سے کچھ کو کافر پیدا کیا گیا ، وہ حالت کفر پر زندہ رہے اور کافر ہی فوت ہوئے ، اور ان میں سے کچھ مومن پیدا ہوتے ہیں ، حالت ایمان پر زندہ رہتے ہیں اور حالت کفر پر فوت ہو جاتے ہیں ، اور ان میں سے کچھ حالت کفر پر پیدا ہوتے ہیں ، اسی حالت پر زندہ رہتے ہیں اور حالت ایمان پر فوت ہوتے ہیں ۔‘‘ اور راوی بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے غصے کا ذکر فرمایا :’’ ان میں سے کچھ کو جلد غصہ آ جاتا ہے اور جلد ہی اتر جاتا ہے ، ان میں سے ایک (خصلت) دوسری (خصلت) کا بدل ہے ، اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہیں غصہ دیر سے آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے یہ بھی ایک (خصلت) دوسری کا بدل ہے ، اور تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جسے غصہ دیر سے آتا ہو اور جلد زائل ہوتا ہو ، اور تم میں سے بدترین شخص وہ ہے جسے غصہ تو جلد آتا ہو جبکہ وہ زائل دیر سے ہوتا ہو ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ غصے سے بچو ، کیونکہ وہ ابن آدم کے دل پر ایک انگارہ ہے ، کیا تم اس کی رگوں کے پھولنے اور اس کی آنکھوں کی سرخی کی طرف نہیں دیکھتے ، جو شخص ایسی کیفیت محسوس کرے تو اسے چاہیے کہ وہ لیٹ جائے اور زمین کے ساتھ لگ جائے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے قرض کا ذکر کیا تو فرمایا :’’ تم میں سے کوئی ادائیگی میں اچھا ہوتا ہے لیکن جب اس نے کسی سے قرض لینا ہو تو وہ وصولی میں سختی کرتا ہے ، یہ (خصلت) دوسری کا بدل ہے ، (تاہم یہ وصف قابل ستائش نہیں) کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ادائیگی میں برے ہوتے ہیں جبکہ وصولی میں اچھے ہوتے ہیں تو یہ بھی دوسری (خصلت) کا بدل ہے ، (تاہم یہ وصف قابل ستائش نہیں) اور تم میں سے بہتر شخص وہ ہے کہ جب اس پر قرض ہو تو وہ اچھی طرح ادا کرتا ہے ، اور جب اس نے قرض لینا ہو تو وہ وصولی میں اچھا ہوتا ہے ، اور تم میں سے بدترین شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی میں برا ہو اور اگر اس نے قرض لینا ہو تو وہ وصولی میں سخت ہو ۔‘‘ حتیٰ کہ جب دھوپ کھجور کے درختوں کی چوٹیوں اور دیواروں کی اطراف پر آ گئی تو فرمایا :’’ سن لو ! دنیا بس اتنی ہی باقی رہ گئی ہے جتنا آج کے دن کا یہ حصہ باقی رہ گیا ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابوبختری ، نبی ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگ اس وقت تک گناہوں کی وجہ سے تباہ و برباد نہیں کئے جائیں گے جب تک وہ گناہوں کے جواز کے لیے جھوٹے عذر پیش نہیں کریں گے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
عدی بن عدی کندی بیان کرتے ہیں ، ہمارے آزاد کردہ غلام نے ہمیں حدیث بیان کی کہ اس نے میرے دادا کو بیان کرتے ہوئے سنا انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ بے شک اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کی نافرمانی کی وجہ سے سب لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا حتیٰ کہ وہ اپنے سامنے برائی ہوتی دیکھیں اور وہ اسے روکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود اسے نہ روکیں ، جب وہ اس طرح کے ہو جائیں تو پھر اللہ عام و خاص (زیادہ اور تھوڑوں سب کو) عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب بنو اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہو گئے تو ان کے علما نے انہیں منع کیا ، وہ باز نہ آئے تو وہ (علما) ان کے ہم نشین اور ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بن گئے ، اللہ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے مشابہ کر دیا اور داؤد و عیسیٰ بن مریم ؑ کی زبان پر ان پر لعنت فرمائی ، اور یہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ زیادتی کرتے تھے ۔‘‘ راوی بیان کرتا ہے ، رسول اللہ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے اور آپ بیٹھ گئے ، پھر فرمایا :’’ نہیں (تم بھی کامیاب نہیں ہو گے) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! حتیٰ کہ تم ان (گناہ گاروں ، ظالموں) کو سختی سے منع کرو ۔‘‘ اور ابوداؤد کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! تم ضرور نیکی کا حکم کرو ، تم ضرور برائی سے منع کرو اور تم ضرور ظالم کے ہاتھوں کو پکڑو تم ضرور اسے حق کی طرف مائل کرو اور تم ضرور اسے حق پر قائم رکھو ورنہ پھر اللہ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے کے مشابہ کر دے گا ، پھر وہ تم پر بھی لعنت فرمائے گا جس طرح اس نے ان پر لعنت فرمائی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے معراج کی رات کچھ آدمیوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کترے جا رہے تھے ، میں نے کہا : جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتایا : یہ آپ کی امت کے خطیب حضرات ہیں ، یہ لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرتے تھے مگر خود کو بھول جاتے تھے ۔‘‘ شرح السنہ ، بیہقی فی شعب الایمان ، اور ان کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ آپ کی امت کے وہ خطیب حضرات ہیں جو یہ کہتے تھے وہ کرتے نہیں تھے ، وہ اللہ کی کتاب پڑھتے تھے لیکن عمل نہیں کرتے تھے ۔‘‘ حسن ، رواہ فی شرح السنہ و البیھقی فی شعب الایمان ۔
عمار بن یاسر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ آسمان سے روٹی اور گوشت پر مشتمل دسترخوان اتارا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ خیانت نہ کریں اور نہ کل کے لیے ذخیرہ کریں ، لیکن انہوں نے خیانت کی ، ذخیرہ کیا اور کل کے لیے اٹھا رکھا ، جس کی وجہ سے انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا گیا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ آخری دور میں میری امت کو ان کے بادشاہوں کی طرف سے مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑے گا ، اور ان سے صرف وہی شخص بچے گا جو اللہ کے دین کو پہچان کر اپنی زبان ، اپنے ہاتھ اور اپنے دل کے ذریعے اس کے خلاف جہاد کرے گا ، یہ وہ شخص ہے جسے پہلی سعادتیں حاصل ہوں گی ، اور وہ شخص جس نے اللہ کے دین کی معرفت حاصل کی اور اس کی تصدیق بھی کی ، اور وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا لیکن اس (کے بیان و تفصیل) پر خاموشی اختیار کی ، اگر اس نے کسی کو اچھا کام کرتے ہوئے دیکھا تو اس پر اس کو پسند کیا ، اور اگر کسی کو برا کام کرتے ہوئے دیکھا تو اس پر اس سے ناراض ہوا ۔ یہ شخص اپنی مخفی پسند و ناپسند پر کامیاب ہو گیا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ عزوجل نے جبریل ؑ کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باسیوں سمیت الٹ دو ۔ اس نے عرض کیا : رب جی ! ان میں تو تیرا فلاں بندہ ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر تیری نافرمانی نہیں کی ۔‘‘ نبی ﷺ نے بیان فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس (شہر) کو اس پر اور ان پر الٹ دے ، کیونکہ اس کا چہرہ میری خاطر کبھی لمحہ بھر کے لیے بھی متغیر نہیں ہوا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ عزوجل روز قیامت بندے سے سوال کرتے ہوئے فرمائے گا : تجھے کیا ہوا تھا کہ جب تو نے برائی دیکھی تو تُو نے اسے کیوں نہیں روکا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کو اس کی دلیل سکھا دی جائے گی اور وہ عرض کرے گا : رب جی ! میں لوگوں سے ڈر گیا اور تجھ سے امید رکھی ۔‘‘ امام بیہقی نے تینوں احادیث شعب الایمان میں نقل کی ہیں ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے ! بے شک نیکی اور برائی دو (الگ الگ) مخلوق ہیں ، روز قیامت انہیں لوگوں کے سامنے کھڑا کیا جائے گا ، چنانچہ نیکی تو اپنے ساتھیوں (یعنی نیکوکاروں) کو خوشخبری دے گی اور ان سے خیر کا وعدہ کرے گی ، جبکہ برائی کہے گی : دور رہو ، دور رہو ، لیکن وہ (برائی کرنے والے) اس سے جدا نہیں ہو سکیں گے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔