مسنداحمد

Musnad Ahmad

غصب کے مسائل

جان بوجھ کر اور از راہِ مذاق غصب کی ممانعت اور مسلمان بھائی کا مال غصب کرنے کی وعید کا بیان

۔ (۶۱۸۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بن السائب عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جدہ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَایَأْخُذَنَّ اَحَدُکُمْ مَتَاعَ صَاحِبِہِ جَادًّا وَلَا لَاعِبًا وَاِذَا وَجَدَ (وَفِیْ لَفْظٍ: واِذَا أَخَذَ) اَحَدُکُمْ عَصَا صَاحِبِہِ فَلْیَرْدُدْھَاعَلَیْہِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۱۰۶م)

۔ عبد اللہ بن سائب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی نہ حقیقت میں اپنے ساتھی کا سامان لے اور نہ مذاق کرتے ہوئے، اگر کوئی شخص اپنے بھائی کی چھڑی اٹھا لے تو وہ اسے واپس کر دے۔

۔ (۶۱۸۷)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ یَثْرِبِیِّ الضَّمْرِیِّ قَالَ: شَھِدْتُّ خُطْبَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمِنًی فَکَانَ فِیْمَا خَطَبَ بِہٖأَنْقَالَ: ((وَلَایَحِلُّ لِاِمْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِیْہِ اِلَّا مَا طَابَتْ بِہٖنَفْسُہُ۔)) قَالَ: فَلَمَّا سَمِعْتُ ذٰلِکَ قُلْتُ: یَارَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! أَرَأَیْتَ لَوْ لَقِیْتُ غَنَمَ ابْنِ عَمِّیْ فَأَخَذْتُ مِنْہَا شَاۃً فَاجْتَزَرْتُہَا ھَلْ عَلَیَّ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئٌ؟ قَالَ: ((اِنْ لَقِیْتَہَا نَعْجَۃً تَحْمِلُ شَفْرَۃً وَاَزْنَادًا فَـلَا تَمَسَّہَا۔)) (مسند احمد: ۲۱۳۹۷)

۔ سیدنا عمرو بن یثربی ضمری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں منیٰ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خطبہ میں موجود تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو خطبہ دیا، اس میںیہ بھی فرمایا: کسی آدمی کے لئے اس کے بھائی کا مال حلال نہیں ہے، مگر وہ جو وہ خوشدلی سے دے دے۔ یہ سن کر میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ اس چیز کی وضاحت فرمادیں کہ میں اپنے بھتیجے کی بکریاں دیکھتا ہوں اور ان میں سے ایک پکڑ کر ذبح کر لیتا ہوں‘ کیایہ میرے لئے بوجھ ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو بھیڑ بکری کو اس حال میں پاتا ہے کہ وہ چھری اور چقماق اٹھائے ہوئے ہو، پھر بھی اسے ہاتھ تک نہ لگانا۔

۔ (۶۱۸۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) بِمِثْلِہِ وَفِیْہِ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَہُ: ((إِنْ لَقِیْتَہَا نَعْجَۃً تَحْمِلُ شَفْرَۃً وَزِنَادًا بِخَبْتِ الْجَمِیْشِ فَـلَا تُہِجْہَا۔)) قَالَ: یَعْنِیْ بِخَبْتِ الْجَمِیْشِ أَرْضًا بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْجَارِ،اَرْضٌ لَیْسَ بِہَا أَنِیْسٌ۔ (مسند احمد: ۲۱۳۹۷)

۔ ایک روایت میں ہے: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو بکری کو اس حال میں پائے کہ وہ چھری اور چقماق اٹھائے ہوئے ہو اور ہو بھی خبت الجمیش علاقے میں (جو مکہ اور جار کے درمیان بے نبات اور پست و کشادہ زمین ہے اور وہاں کوئی مانوس چیز بھی نہیں ہے، پھر بھی تو اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا)۔

۔ (۶۱۸۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنِ اقْتَطَعَ مَالَ اِمْرِئٍ مُسْلِمٍ بِغَیْرِ حَقٍّ لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَھُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ۔)) (مسند احمد: ۳۹۴۶)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے بغیر حق کے مسلمان آدمی کے مال پر قبضہ کر لیا، وہ اللہ تعالی کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔

۔ (۶۱۹۰)۔ عَنْ اَبِیْ حُمَیْدِ نِ السَّاعَدِیِّ عَنْ رَسُوْل اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَحِلُّ لِاِمْرِئٍ أَنْ یَأْخُذَ مَالَ أَخِیْہِ بِغَیْرِ حَقِّہِ۔)) وَذٰلِکَ لِمَا حَرَّمَ اللّٰہُ مَالَ الْمُسْلِمِ علیَ الُمُسْلِمِ۔ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: قَالَ اَبِیْ: وَقَالَ عُبَیْدُ بْنُ اَبِیْ قُرَّۃَ: ثَنَا سُلَیْمَانُ حَدَّثَنِیْ سُہَیْلٌ حَدَّثَنِیْ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ سَعْدٍ عَنْ اَبِی حُمَیْدِنِ السَّاعَدِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ یَأْخُذَ عَصَا أَخِیْہِ بِغَیْرِ طِیْبِ نَفْسٍ۔)) وَ ذٰلِکَ لِشِدَّۃِ مَاحَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَالَ الْمُسْلِمِ عَلٰی الْمُسْلِمِ۔ (مسند احمد:۲۴۰۰۳)

۔ سیدنا ابو حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کا مال ناحق طریقے سے لے۔ اس فرمان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دوسری روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی آدمی کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی اس کی رضامندی کے بغیر لے۔ اس ارشاد کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سختی سے ایک مسلمان کے مال کو دوسرے مسلمان پر حرام قرار دیا ہے۔

۔ (۶۱۹۱)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اَنْ یَحُلَّ صِرَارَ نَاقَۃٍ بِغَیْرِ إِذْنِ أَھْلِہَا فَاِنَّہُ خَاتِمُہُمْ عَلَیْہَا فَاِذَا کُنْْتُمْ بِقَفْرٍ فَرَأَیْتُمُ الْوَطْبَ أَوِ الرَّاوِیَۃَ أَوِ السِّقَائَ مِنَ اللَّبَنِ فَنَادُوْا أَصْحَابَ الْإِبِلِ ثَلَاثًا فَاِنْ سَقَاکُمْ فَاشْرَبُوْا وَاِلَّا فَلَا، وَإِنْ کُنْْتُمْ مُرْمَلِیْنَ وَلَمْ یَکُنْ مَعَکُمْ طَعَامٌ فَلْیُمْسِکْہُ رَجُلَانِ مِنْکُمْ ثُمَّ اشْرَبُوْا۔)) (مسند احمد: ۱۱۴۳۹)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ مالکوں کی اجازت کے بغیر کسی اونٹنی کا دودھ بند کھولے، کیونکہیہ اس جانور کے دودھ پر مہر کی حیثیت رکھتا ہے اور جب تم بے آباد جگہ میں ہو اور تم وہاں کوئی دودھ بھری مشک پائو تو وہاں اونٹ والوں کوتین مرتبہ آواز دو‘ اگر اس کا مالک تمہیں پینے کی اجازت دے تو پی لو، وگرنہ نہیں،اور اگر تم محتاج ہو اور تمہارے ساتھ کھانا نہ ہو تو تم میں سے دو آدمی اس کو پکڑ کر رکھیں اور پھر تم پی لو۔

۔ (۶۱۹۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلَا لا تُحْتَلَبَنَّ مَاشِیَۃُ اِمْرِئٍ اِلَّا بِاِذْنِہِ، أَیُحِبُّ اَحَدُ کُمْ أَنْ تُوْتٰی مَشْرُبَتُہُ فَیُکْسَرَ بَابُہَا ثُمَّ یُنْتَثَلَ مَافِیْہَا، فَاِنَّ مَا فِیْ ضُرُوْعِ مَوَاشِیْہِمْ طَعَامُ أَحَدِھِمْ، اَلَا فَـلَا تُحْلَبَنَّ مَاشِیَۃُ اِمْرِئٍ اِلَّا بِاِذْنِہِ (أَوْ قَالَ) بِأَمْرِہِ۔)) (مسند احمد: ۴۵۰۵)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! کسی کے مویشی اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے جائیں، کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ کوئی تمہارے بالاخانے میں آئے اور اس کا دروازہ توڑ کر اس کے اندر والی چیزیں لے جائے، اسی طرح ہی مویشیوں کے تھنوں میں جوکچھ ہے، وہ ان کے مالکوں کا کھانا ہے، خبردار! کسی کے مویشی اس کی اجازت یا حکم کے بغیر نہ دوہے جائیں۔

۔ (۶۱۹۳)۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: کُنَّا فِیْ سَفَرٍ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَرْمَلْنَا وَأَنْفَضْنَا فَأَتَیْنَا عَلٰی إِبِلٍ مَصْرُوْرَۃٍ بِلِحَائِ الشَّجَرِ وَابْتَدَرَھَا الْقَوْمُ لِیَحْلِبُوْھَا فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ ھٰذِہٖعَسٰی أَنْ یَکُوْنَ فِیْہَا قُوْتُ أَھْلِ بَیْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، أَتُحِبُّّوْنَ لَوْ أَنَّہُمْ اَتَوْا عَلٰی مَا فِیْ أَزْوَادِکُمْ فَأَخَذُوْہُ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((إِنْ کُنْْتُمْ لَابُدَّ فَاعِلِیْنَ فَاشْرَبُوْا وَلَا تَحْمِلُوْا۔)) (مسند احمد: ۹۲۴۱)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے رایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے،ہوا یوں کہ ہمارا زادِ راہ ختم ہوگیا اور ہم محتاج ہو گئے، اتنے میں ہمارا گزر ایسی اونٹنیوں کے پاس سے ہواکہ جن کے تھن درخت کے چھلکوں سے بندھے ہوئے تھے، لوگ ان کو دوہنے کے لیے ان کی طرف لپکے، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ہوسکتا ہے کہ یہ مسلمانوں میں سے کسی خاندان کی خوراک ہو، بھلا کیا تم یہ پسند کرو گے کہ یہ لوگ آ کر تمہارے زاد راہ لے جائیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے لیے کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے تو پھر یہیں پیلو اور اپنے ساتھ اٹھا کر نہ لے جاؤ۔