مسنداحمد

Musnad Ahmad

غصب کے مسائل

اس شخص کا بیان جس نے مالک کی اجازت کے بغیر بکری پکڑ کر اس کو ذبح کیا اور اس کو بھونا یا پکایا


۔ (۶۲۰۴)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَخْبَرَہُ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ جَنَازَۃٍ فَلَمَّا رَجَعْنَا لَقِیَنَا دَاعِیْ اِمْرَأَۃٍ مِنْ قُرَیْشٍ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ فُلَانَۃً تَدْعُوْکَ وَمَنْ مَعَکَ إِلٰی طَعَامٍ فَانْصَرَفَ فَانْصَرَفْنَا مَعَہُ فَجَلَسْنَا مَجَالِسَ الْغِلْمَانِ مِنْ آبَائِہِمْ بَیْنَ أَیْدِیْہِمْ ثُمَّ جِیْیئَ بِالطَّعَامِ فَوَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَہُ وَوَضَعَ الْقَوْمُ اَیْدِیَہِمْ فَفَطِنَ لَہُ الْقَوْمُ وَھُوَ یَلُوْکُ لُقْمَۃً لَا یُجِیْزُھَا فَرَفَعُوْا أَیْدِیَہِمْ وَغَفَلُوْا عَنَّا ثُمَّ ذَکَرُوْا فَاَخَذُوْا بِاَیْدِیْنَا فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَضْرِبُ اللُّقْمَۃَ بِیَدِہِ حَتّٰی تَسْقُطَ ثُمَّ اَمْسَکُوْا بِأَیْدِیْنَایَنْظُرُوْنَ مَایَصْنَعُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَفَظَہَا فَأَلْقَاھَا فَقَالَ: ((أَجِدُ لَحْمَ شَاۃٍ أُخِذَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ أَھْلِہَا۔)) فَقَامَتِ الْمَرْأَۃُ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّہُ کَانَ فِیْ نَفْسِیْ أَنْ أَجْمَعَکَ وَمَنْ مَعَکَ عَلٰی طَعَامٍ فَأَرْسَلَتُ إِلَی الْبَقِیْعِ فَلَمْ أَجِدْ شَاۃً تُبَاعُ وَکَانَ عَامِرُ بْنُ اَبِیْ وَقَّاصِ ابْتَاعَ شَاۃً أَمْسِ مِنَ الْبَقِیْعِ فَأَرْسَلَتُ إِلَیْہِ أَنِ ابْتُغِیَ لِیْ شَاۃٌ فِی الْبَقِیْعِ فَلَمْ تُوْجَدْ فَذُکِرَ لِیْ أَنَّکَ اشْتَرَیْتَ شَاۃً فَأَرْسِلْ بِہَا إِلیَّ فَلَمْ یَجِدْہُ الرَّسُوْلُ وَوَجَدَ أَھْلَہُ فَدَفَعُوْھَا إِلٰی رَسُوْلِیْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَطْعِمُوْھَا الْأُسَارٰی۔)) (مسند احمد: ۲۲۸۷۶)

۔ ایک انصاری صحابی بیان کرتے ہیں: ہم ایک جنازہ کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلے، جب واپس پلٹے تو ایک قریشی عورت کا داعی ہمیں ملا اور کہا: (اے اللہ کے رسول!) فلاں عورت آپ کو آپ کے ساتھیوں سمیت کھانے کے لیے بلا رہی ہے۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے گئے اور ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہو لیے اور (گھر میں جا کر) اس طرح بیٹھ گئے، جیسے بچے اپنے باپوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، پھر کھانا لایا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ کھانے پر رکھا اور لوگوں نے بھی ایسے ہی کیا، لیکن لوگ سمجھ گئے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک لقمے کو چبانا چاہتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایسے نہیں کر پا رہے، پس انھوں نے اپنے ہاتھ اٹھا لیے،اور ہم سے غافل ہو گئے، پھر جب ان کو یاد آیا تو ہمارے ہاتھوں کو پکڑ لیا، پھر ہرآدمی نے اپنے لقمے پر ہاتھ مارا اور وہ زمین پر گر پڑا، پھر انھوں نے اپنے ہاتھوں کو روک لیا اور دیکھنے لگ گئے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیا کرتے ہیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس لقمے کو پھینک دیا اور فرمایا: مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایسی بکری کا گوشت ہے، جو مالک کی اجازت کے بغیر لی گئی ہے۔ اب کی بار داعی عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ یہ تھا کہ میں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو کھانے پر جمع کروں، پس میں نے بقیع کی طرف آدمی کو بھیجا، لیکن وہاں فروخت کے لیے کوئی بکری نہ مل سکی، اُدھر عامر بن ابی وقاص کل بقیع سے ایک بکری خرید کر لائے تھے، میں نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ میرے لیے بھی بقیع سے کوئی بکری خرید لی جائے، لیکن کوئی بکری نہ ملی، پھر میں نے اس کی طرف پیغام بھیجا کہ تو نے جو بکری خریدی ہے، وہی میری طرف بھیج دو، لیکن وہ میرے قاصد کو نہ مل سکے، لیکن اس کے گھر والوں نے وہ بکری میرے قاصد کو دے دی،یہ تفصیل سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کھانا قیدیوں کو کھلا دو۔

Status: Sahih
حکمِ حدیث: صحیح
Conclusion
تخریج
(۶۲۰۴) تخریج: اسنادہ قوی۔ أخرجہ ابوداود: ۳۳۳۲ (انظر: ۲۲۵۰۹)
Explanation
شرح و تفصیل
فوائد:… سنن ابو داود میں پوری روایتیوں ہے: ایک انصاری کہتا ہے: ہم ایک جنازہ میں رسول اللہa کے ساتھ نکلے، میں نے آپa کو دیکھا، آپa قبر کے کنارے پر بیٹھے تھے اور کھودنے والے کو فرما رہے تھے: پاؤں کی طرف سے کھلا کرو، سر والی جانب کو کھلا کرو۔‘‘جب آپa وہاں سے واپس پلٹے تو ایک عورت کا داعی آپa کو ملا، (اس نے آپa کو دعوت دی، پس آپa نے دعوت قبول کی اور اس کے گھر) تشریف لے گئے، کھانا لایا گیا، آپ a اور لوگوں نے کھانا کھانا شروع کیا،ہمارے بڑے آپa کو دیکھ رہے تھے، آپa نے لقمہ چبایا اور پھر فرمایا: ’’میں محسوس کرتا ہوں کہ بکری مالک کی اجازت کے بغیر لے کر ذبح کر دی گئی ہے۔‘‘ اس عورت نے (وضاحت کرتے ہوئے) کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے بکری خریدنے کے لیے (غلام کو) بقیع کی طرف بھیجا، لیکن وہاں سے کوئی بکری نہ ملی، پھر میںنے اپنی پڑوسی کی طرف بھیجا، اس نے ایک بکریخریدی تھی، میں نے اس کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ وہی بکری مجھے فروخت کردے، لیکن وہ موجود نہیں تھا، پھر میں نے اس کی بیوی کو پیغام بھیجا، اس نے یہ بکری میری طرف بھیج دی۔ آپa نے فرمایا: ’’یہ گوشت قیدیوں کو کھلا دو۔‘‘ (ابوداود: ۳۳۳۲) علامہ عظیم آبادیk نے کہا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس بکری کا سودا صحیح نہیں تھا، کیونکہ عورت کے خاوند کی رضامندی شامل نہیں تھی، جو کہ اصل مالک تھا۔ یہ بیع فضولی سے ملتی جلتی ہے، جو مالک کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے، بہرحال شبہ قوی ہے اور خود ایسا کھانا کھانا پسندیدہ نہیں ہے۔ (عون المعبود۲/ ۱۵۲۳) یہ گوشت واضح طور پر حرام نہ تھا، کیونکہ مالک کو راضی کرناممکن تھا، اس لیے اسے قیدیوں کو کھلانے کا حکم دے دیا گیا۔ ہمیںیہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مشکوک اورناجائز ماکولات و مشروبات سے اجتناب کرنا چاہیے، جیسا کہ آپa نے چبایا ہوا لقمہ بھی پھینک دیا، کیونکہ اس چیز کا بھی امکان تھا کہ اصل مالک راضی ہی نہ ہو۔