مسنداحمد

Musnad Ahmad

فرائض کے ابواب

اصحاب الفروض سے ابتداء کرنے اور ان سے بچ جانے والی میراث کو عصبہ میں تقسیم کرنے کا بیان

۔ (۶۳۵۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْحِقُوْا الْفَرَائِضَ بِأَھْلِہَا، فَمَا بَقِیَ فَہُوَ لِأَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ)) (مسند احمد: ۲۶۵۷)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچ جائے، وہ قریبی مذکر رشتہ دار کے لیے ہو گا۔

۔ (۶۳۵۳)۔ وَعَنْہُ أَیْضًا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِقْسِمُوْا الْمَالَ بَیْنَ أَھْلِ الْفَرَائِضِ عَلٰی کِتَابِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَمَا تَرَکَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلٰی ذَکَرٍ۔)) (مسند احمد: ۲۸۶۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق مال کو اصحاب الفروض میں تقسیم کرو، مقررہ حصوں سے جو کچھ بچ جائے، وہ قریبی مذکر رشتہ دار کے لیے ہو گا۔

۔ (۶۳۵۴)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: جَائَ تِ امْرَأَۃُ سَعْدِ بْنِ الرَبِیْعِ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِاِبْنَتَیْہَا مِنْ سَعْدٍ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَبَیْعِ قُتِلَ أَبُوْھُمَا مَعَکَ فِیْ اُحُدٍ شَہِیْدًا وَاِنَّ عَمَّہُمَا أَخَذَ مَالَھُمَا فَلَمْ یَدَعْ لَھُمَا مَالًا وَلَا یُنْکَحَانِ اِلَّا وَلَھُمَا مَالٌ، قَالَ: فَقَالَ: ((یَقْضِی اللّٰہُ فِیْ ذٰلِکَ۔)) فَنَزَلَتْ اٰیَۃُ الْمِیْرَاثِ، فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی عَمِّہِمَا، فَقَالَ: ((أَعْطِ ابْنَتَیْ سَعْدِ الثُّلُثَیْنِ وَأُمَّہُمَا الثُّمُنَ وَمَا بَقِیَ فَہُوَ لَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۵۸)

۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن ربیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی اپنی دو بیٹیاں لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! یہ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دو بیٹیاں ہیں، ان کا باپ جنگ احد میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شہید ہو چکا ہے، اب ان کے چچا نے تمام مال سمیٹلیا ہے، ظاہر ہے اگر ان بیٹیوں کے پاس مال نہ ہوا تو کوئی آدمی ان سے نکاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بارے میں اللہ تعالیٰ کو ئی فیصلہ فرمائے گا۔ پھر میراث والی آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان بچیوں کے چچا کو بلایا اورفرمایا: سعد کی بیٹیوں کو دوتہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصے دے، پھر جو کچھ بچ جائے وہ تیرا ہے۔

۔ (۶۳۵۵)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ زَوْجٍ وَأُخْتٍ لِأُمٍّ وَأَبٍ فَاَعْطَی الزَّوْجَ النِّصْفَ، وَالْاُخْتَ النِّصْفَ، فَکُلِّمَ فِیْ ذٰلِکَ فَقَالَ: سَیِّدُنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَضٰی بِذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۲۱۹۷۸)

۔ سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے میت کے خاونداور حقیقی بہن کے بارے میں سوال کیا گیا، پس انھوں نے نصف خاوند کو اور نصف بہن کو دیا اور جب ان سے اس بارے میں بات کی گئی تو انھوں نے کہا: ہمارے سردار رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسے ہی فیصلہ کیا تھا۔