مسنداحمد

Musnad Ahmad

فرائض کے ابواب

بہنوں کا بیٹیوں کی وجہ سے عصبہ بننے اورپوتی کے ساتھ بیٹی کا حصہ مقرر ہونے کا بیان

۔ (۶۳۵۶)۔ عَنْ ھُزَیْلِ بْنِ شُرَحْبِیْلٍ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ أَبَا مُوْسَی الْأَشْعَرِیَّ عَنْ اِمْرَأَۃٍ تَرَکَتْ اِبْنَتَہَا وَاِبْنَتَ اِبْنِہَا وَأُخْتَہَا، فَقَالَ: النِّصْفُ لِلْاِبْنَۃِ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَقَالَ: ائْتِ ابْنَ مَسْعُوْدٍ فَاِنَّہُ سَیُتَابِعُنِیْ، قَالَ: فَأَتَوْا ابْنَ مَسْعُوْدٍ فَأَخْبَرُوْہُ بِقَوْلِ اَبِیْ مُوْسٰی، فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ لَأَقْضِیَنَّ فِیْہَا بِقَضَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (قَالَ شُعْبَۃُ: وَجَدْتُ ھٰذَا الْحَرْفَ مَکُتْوَبًا، لَأَقْضِیَنَّ فِیْہَا بِقَضَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) لِلْاِبْنَۃِ النِّصْفُ وَلِاِبْنَۃِ الْاِبْنِ السُّدُسُ تَکْمِلَۃَ الثُّلُثَیْنِ وَمَا بَقِیَ فَلِلْأُخْتِ، فَأَتَوْا أَبَا مُوْسٰی فَأَخْبَرُوْہُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ، فَقَالَ اَبُوْ مُوْسٰی: لَاتَسْأَلُوْنِیْ عَنْ شَیْئٍ مَادَامَ ھٰذَا الْحِبْرُ بَیْنَ اَظْہُرِکُمْ۔ (مسند احمد: ۴۴۲۰)

۔ ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں ایک آدمی نے سیدناابوموسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ ایک عورت فوت ہو گئی ہے اور اس نے اپنے ورثاء میں ایک بیٹی، ایک پوتی اور ایک بہن چھوڑی ہے، ان کو اس کی وراثت سے کتنا حصہ ملے گا؟ انھوں نے کہا: مال کا ایک نصف بیٹی کو اور ایک نصف بہن کو ملے گا اور پوتی محروم رہے گی، اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ تم سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس چلے جاؤ، وہ بھی میرے ساتھ اتفاق کریں گے، پس وہ گیا اور جب سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فیصلے سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا: اگر میں بھییہی فیصلہ کر دوں تو میں تو گمراہ ہو جاؤں گا اور راہ راست والا نہ رہوں گا، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کروں گا اوروہ یہ ہے کہ بیٹی کو جائیداد کا نصف، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا، تاکہ اولاد میں مال کا دو تہائی پورا ہو جائے اور جو مال باقی بچے گا، وہ بہن کو دیا جائے، پھر سائل نے آکر سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والے فتویٰ سے آگاہ کیا،یہ سند کر ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب تک یہ علم کا سمندر تمہارے اندر موجود ہے، مجھ سے کوئی سوال نہ کیا کرو۔

۔ (۶۳۵۷)۔ وَعَنْہُ أَیْضًا قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلٰی اَبِیْ مُوْسٰی وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِیْعَۃَ فَسَأَلَھُمَا عَنِ ابْنۃٍ وَابْنَۃِ ابْنٍ وَاُخْتٍ لِأَبٍ فَقَالَ: لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُوْدٍ فَإِنَّہُ سَیُتَابِعُنَا، قَالَ: فَاَتَی ابْنَ مَسْعُوْدٍ فَسَأَلَہُ وَأَخْبَرَہُ بِمَا قَالَا، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: لَقَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ، سَأَقْضِیْ بِمَا قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، لِلْاِبْنَۃِ النِّصْفُ وَلِاِبْنَۃِ الْاِبْنِ السُّدُسُ تَکْمِلَۃً لِلَّثُلُثَیْنِ وَمَا بَقِیَ فَلِلْأُخْتِ۔ (مسند احمد: ۴۱۹۵)

۔ ہزیل بن شرحبیل سے روایت ہے کہ ایک آدمی سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا سلمان بن ربیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اوران سے سوال کیا کہ وارثین میں ایک بیٹی،ایک پوتی اور ایک علاتی بہن ہے؟ انہوں نے کہا: نصف مال بیٹی کو اور نصف بہن کو ملے گا اور سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جاؤ، وہ بھی ہمارے اس فتویٰ کی موافقت کریں گے۔ لیکن جب سائل سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور ان کو ان دونوں کے فتویٰ کی خبر دی تو سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں بھی اسی طرح فیصلہ کروں تو میں راہ راست سے بھٹک جائوں گا، میں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم والا فیصلہ کروں گا اور وہ یہ ہے کہ نصف بیٹی کو، چھٹا حصہ پوتی کو، تاکہ دو تہائی پورا ہو جائے اور جو مال بچے گا، وہ بہن کو ملے گا۔