۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میرا پوتا فوت ہو چکا ہے، مجھے اس کی میراث سے کیا ملے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیرے لئے چھٹا حصہ ہے۔ جب وہ واپس جانے کے لئے مڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بلا کر فرمایا: تجھے چھٹا حصہ بھی ملے گا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بلا کر فرمایا: یہ چھٹا حصہ تیرے لیے زائد ہے، (یہ حصہ کے طور پر نہیں دیا گیا)۔
۔ سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس آدمی کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں، جس نے جدّ کی میراث کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی حدیث سنی ہو؟ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: جی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس کو ایک تہائی حصہ دیا تھا، انھوں نے کہا: کن وارثوں کے ساتھ؟ اس نے کہا: یہ تو میں نہیں جانتا، آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر تونے سمجھا ہی نہیں۔
۔ عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی اور صحت کی حالت میں صحابہ کرام کو جمع کیا اور ان کو اللہ تعالی کا واسطہ دے کر پوچھا کہ آیا کسی نے جدّ کی میراث کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی حدیث سنی ہے؟ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک مسئلہ لایا گیا اور اس میں دادا بھی تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دادے کو چھٹا یا تیسرا حصہ دیا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ مسئلہ کیا تھا، یعنی اس مسئلے کے افراد کون تھے؟ انھوں نے کہا: یہ تو میں نہیں جانتا، آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: تجھے یہ جاننے سے کس چیز نے منع کر دیا تھا؟
۔ حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے وراثت سے جدّ کے فرضی حصے کے بارے میں لوگوں سے دریافت کیا، سیدنا معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فیصلہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا: کیا؟ انھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھٹا حصہ دیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کن افراد کے ساتھ؟ انہوں نے کہا: یہ تو مجھے معلوم نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے مسئلہ سمجھا ہی نہیں، تجھے یہ کیا کفایت کرے گا۔
۔ سعید بن جبیرسے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود کے پاس بیٹھا ہوا تھا، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے قضاء کا عہدہ ان کے سپرد کیا ہوا تھا، ان کو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا یہ خط موصول ہوا: السلام علیکم، اما بعد! تم نے جدّ کی میراث معلوم کرنے کے لیے مجھے خط لکھا ہے، تو گزارش ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں نے اس امت سے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو میں ابن ابی قحافہ کا انتخاب کرتا، لیکن وہ میرا دینی بھائی اور غار کا ساتھی ہے۔ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جدّ کو باپ کے قائم مقام قرار دیا تھا اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔
۔ (دوسری سند) سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیشک وہ شخصیت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کے بارے میں فرمایا تھا: اگر میں نے اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا۔ اس ذات نے جدّ کو باپ کے قائم مقام قرار دیا۔