مسنداحمد

Musnad Ahmad

قتل اور دوسرے جرائم کے مسائل اور خونوں کے احکام

والدین کو اولاد کے بدلے میں قتل نہ کرنے اور ایک مقتول کے قصاص میں دو افراد کو قتل کرنے کا بیان

۔ (۶۵۵۷)۔ عَنْ مُجَاھِدٍ قَالَ: حَذَفَ رَجُلٌ اِبْنًا لَہُ بِسَیْفِہِ فَقَتَلَہُ فَرُفِعَ إِلٰی عُمَرَ فَقَالَ: لَوْلَا أَنِّیْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَا یُقَادُ الْوَالِدُ مِنْ وَلَدِہِ۔)) لَقَتَلْتُکَ قَبْلَ أَنْ تَبْرَحَ۔ (مسند احمد: ۹۸)

۔ مجاہد کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے تلوار سے اپنے بیٹے کی گردن اڑا کر اسے مار ڈالا، جب یہ مقدمہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عدالت میں لایا گیا تو انہوں نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ والد سے اولاد کے بدلے قصاص نہیں لیا جاتا تو میں تجھے اسی جگہ قتل کر دیتا۔

۔ (۶۵۵۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللُّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَا یُقَادُ لِوَلَدٍ مِنْ وَالِدِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸)

۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اولاد کا والدین سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔

۔

۔ سیدہ ام ورقہ بنت عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر جمعہ کو ان کی ملاقات کے لیے تشریف لاتے تھے، ایک دن میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا بدر کے دن آپ مجھے اجازت دیں گے، تاکہ میں بھی آپ کے ہمراہ جائوں اوربیماروں کی تیمار داری کروں اور زخمیوں کا علاج معالجہ کروں، شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت عطا کر دے ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے گھر ہی ٹھہری رہو، اللہ تعالیٰ تجھے شہادت عطا کریں گے۔ سیدہ ام ورقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنی وفات کے بعد ایک غلام اور ایک لونڈی کو آزاد کر رکھا تھا، جب ان دونوں کے لیےیہ مدت طویل نظر آئی تو انھوں نے ایک چادر کے ذریعے اس کو ڈھانپ دیا،یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں اور وہ دونوں بھاگ گئے، جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اطلاع دی گئی کہ ام ورقہ کو اس کے غلام اور لونڈی نے قتل کر دیا ہے اور وہ بھاگ گئے ہیں، تو وہ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ ام ورقہ کی ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے تھے، پھر انھوں نے کہا: چلو، اس شہید خاتون کی زیارت کرتے ہیں، فلاں لونڈی اور فلاں غلام نے اس کو ڈھانپ کر مار دیا اور وہ خود بھاگ گئے ہیں، کوئی آدمی ان کو جگہ نہ دے،بلکہ جو بھی ان کو پائے، وہ ان کو میرے پاس لے آئے، پس ان دونوں کو لایا گیا اور ان کو سولی پر لٹکا دیا گیا،یہ اسلام میں پہلے دو افراد تھے، جن کو سولی پر چڑھایا گیا۔

۔ (۶۵۶۰)۔ حَدَّثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ قَالَ: ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ جَمِیْعٍ قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ خَلَّادٍ الْأَنْصَارِیُّ وَجَدَّتِیْ عَنْ أُمِّ وَرَقَۃَ بِنْتِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَزُوْرُھَا کُلَّ جُمُعَۃٍ وَأَنَّہَا قَالَتْ: یَانَبِیَّ اللّٰہِ! یَوْمَ بَدْرٍ أَتَأْذَنُ فَاَخْرُجُ مَعَکَ أُمَرِّضُ مَرْضَاکُمْ وَأُدَاوِیْ جَرْحَاکُمْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُہْدِیْ لِیْ شَہَادَۃً؟ قَالَ: ((قَرِّیْ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یُہْدِیْ لَکَ شَہَادَۃً۔)) وَکَانَتْ أَعْتَقَتْ جَارِیَۃً لَھَا وَغُلَامًا عَنْ دُبُرٍ مِنْہَا فَطَالَ عَلَیْہِمَا فَغَمَّاھَا فِی الْقَطِیْفَۃِ حَتّٰی مَاتَتْ وَھَرَبَا، فَأُتِیَ عُمَرُ فَقِیْلَ لَہُ: إِنَّ أُمَّ وَرَقَۃَ قَدْ قَتَلَہَا غُلَامُہَا وَجَارِیَتُہَا وَھَرَبَا، فَقَامَ عُمَرُ فِیْ النَّاسِ فقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَزُوْرُ أُمَّ وَرَقَۃَیَقُوْلُ: انْطَلِقُوْا نَزُوْرُ الشَّہِیْدَۃَ وَأَنَّ فُلَانَۃً جَارِیَتَہَا وَفُلَانًا غُلَامَہَا غَمَّاھَا ثُمَّ ھَرَبَا فَـلَا یُؤْوِیْہِمَا اَحَدٌ، وَمَنْ وَجَدَھُمَا فَلْیَأْتِ بِہِمَا، فَأُتِیَ بِہِمَا فَصُلِبَا فَکَانَا أَوَّلَ مَصْلُوْبَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۲۵)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: أَنَّ غُلَامًا قُتِلَ غِیلَۃً فَقَالَ عُمَرُ لَوْ اشْتَرَکَ فِیہَا أَہْلُ صَنْعَاء َ لَقَتَلْتُہُمْ۔ … ایک لڑکا دھوکے سے قتل کر دیا گیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر اہل صنعاء سارے اس کوقتل کرنے میں شریک ہوتے تو میں ان سب کو قتل کر دیتا۔ (صحیح بخاری)